کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ نَوَاقِضِ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ - رضي الله عنه - قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً، فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ أَنْ يَسْأَلَ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - فَسَأَلَهُ? فَقَالَ: ((فِيهِ الْوُضُوءُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بہت مذی والا مرد تھا۔ میں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کریں۔ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا (کہ اس کی وجہ سے وضو کرنا ہوگا یا غسل جنابت؟) آپ نے فرمایا : ’’ایسی حالت میں وضو ہی ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم ۔یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔)
تشریح :
راویٔ حدیث: [حضرت مقداد رضی اللہ عنہ ] ’’میم‘‘ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔سلسلۂ نسب یوں ہے: مقداد بن عمرو بن ثعلبۃ البھراني اور حلف کی وجہ سے الکندی کہلائے۔ ان کی کنیت ابوالاسود یا ابوعمرو ہے اور مقداد بن اسود کے نام سے مشہور ہیں۔ اور اسود سے مراد اسود بن عبد یغوث زہری ہے۔ چونکہ اس نے مقداد کو متبنٰی (منہ بولا بیٹا) بنا لیا تھا اور جاہلیت میں اس کے ساتھ حلیفانہ تعلقات و روابط قائم کر لیے تھے‘ چنانچہ اس کی طرف نسبت کے ساتھ مشہور ہوگئے۔ اسلام لانے والوں میں ان کا نمبر چھٹا ہے۔ دو مرتبہ ہجرت کے شرف سے شرف یاب ہوئے۔ کبار‘ فضلاء اور بہترین اوصاف و خصائل کے مالک صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ عہد رسالت میں واقع ہونے والے تمام غزوات میں شریک رہے۔ معرکہ ٔبدر کے روز گھڑ سواروں میں شامل تھے۔ فتح مصر میں حاضر تھے۔ ۳۳ ہجری میں جوف کے مقام پر‘ جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے‘ وفات پائی۔ ان کی میت کو مدینہ لایا گیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع میں دفن کیے گئے۔ اس وقت ان کی عمر ۷۰ برس تھی۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الوضوء، باب من استحيا فأمر غيره بالسؤال، حديث:132، ومسلم، الحيض، باب المذي، حديث:303.
راویٔ حدیث: [حضرت مقداد رضی اللہ عنہ ] ’’میم‘‘ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔سلسلۂ نسب یوں ہے: مقداد بن عمرو بن ثعلبۃ البھراني اور حلف کی وجہ سے الکندی کہلائے۔ ان کی کنیت ابوالاسود یا ابوعمرو ہے اور مقداد بن اسود کے نام سے مشہور ہیں۔ اور اسود سے مراد اسود بن عبد یغوث زہری ہے۔ چونکہ اس نے مقداد کو متبنٰی (منہ بولا بیٹا) بنا لیا تھا اور جاہلیت میں اس کے ساتھ حلیفانہ تعلقات و روابط قائم کر لیے تھے‘ چنانچہ اس کی طرف نسبت کے ساتھ مشہور ہوگئے۔ اسلام لانے والوں میں ان کا نمبر چھٹا ہے۔ دو مرتبہ ہجرت کے شرف سے شرف یاب ہوئے۔ کبار‘ فضلاء اور بہترین اوصاف و خصائل کے مالک صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ عہد رسالت میں واقع ہونے والے تمام غزوات میں شریک رہے۔ معرکہ ٔبدر کے روز گھڑ سواروں میں شامل تھے۔ فتح مصر میں حاضر تھے۔ ۳۳ ہجری میں جوف کے مقام پر‘ جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے‘ وفات پائی۔ ان کی میت کو مدینہ لایا گیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع میں دفن کیے گئے۔ اس وقت ان کی عمر ۷۰ برس تھی۔