كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ صِفَةِ الْحَجِّ وَدُخُولِ مَكَّةَ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ لَهَا: ((طَوَافُكِ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ يَكْفِيكَ لِحَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل
باب: حج کا طریقہ اور مکہ میں داخل
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’تیرا بیت اللہ کا طواف کر لینا اور صفا اور مروہ کے مابین سعی کر لینا تیرے حج اور تیرے عمرے (دونوں) کے لیے کافی ہے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. معلوم رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تلبیہ عمرے کا کہا تھا مگر وہ ایام ماہواری میں مبتلا ہوگئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’عمرے کو چھوڑ دو۔‘‘ اور انھیں حج کا احرام باندھنے کا حکم دیا۔ 2. بعض روایات میں ہے‘ آپ نے فرمایا: [اُرْفُضِي عُمْرَتَکِ] الرفض کے معنی ہیں: ترک کرنا‘ یعنی عمرے کے اعمال و افعال کو نظر انداز کر دے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ عمرے سے نکل جا اور اسے باطل کر دے۔ یہ ابطال حج اور عمرے میں صحیح نہیں بجز اس صورت کے کہ احکام سے فراغت کے بعد حلال ہو جائے۔ جب انھوں نے حج کا احرام باندھ لیا تو اب وہ قارنہ بن گئیں۔ 3. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قارن کے لیے حج اور عمرہ دونوں کی طرف سے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الحج، باب بيان وجوه الإحرام....، حديث:132، 133-(1211).
1. معلوم رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تلبیہ عمرے کا کہا تھا مگر وہ ایام ماہواری میں مبتلا ہوگئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’عمرے کو چھوڑ دو۔‘‘ اور انھیں حج کا احرام باندھنے کا حکم دیا۔ 2. بعض روایات میں ہے‘ آپ نے فرمایا: [اُرْفُضِي عُمْرَتَکِ] الرفض کے معنی ہیں: ترک کرنا‘ یعنی عمرے کے اعمال و افعال کو نظر انداز کر دے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ عمرے سے نکل جا اور اسے باطل کر دے۔ یہ ابطال حج اور عمرے میں صحیح نہیں بجز اس صورت کے کہ احکام سے فراغت کے بعد حلال ہو جائے۔ جب انھوں نے حج کا احرام باندھ لیا تو اب وہ قارنہ بن گئیں۔ 3. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قارن کے لیے حج اور عمرہ دونوں کی طرف سے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے۔