بلوغ المرام - حدیث 622

كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ صِفَةِ الْحَجِّ وَدُخُولِ مَكَّةَ ضعيف وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ)). رَوَاهُ الْخَمْسَةُ إِلَّا النَّسَائِيَّ، وَفِيهِ انْقِطَاعٌ.

ترجمہ - حدیث 622

کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل باب: حج کا طریقہ اور مکہ میں داخل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ’’طلوع آفتاب سے پہلے کنکریاں نہ مارو۔‘‘ (اسے نسائی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے۔ اس کی سند میں انقطاع ہے)
تشریح : 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسندالإمام أحمد:۳ /۵۰۴‘ ۵۰۵‘ والإرواء للألباني:۴ /۲۷۶) 2. دس ذوالحجہ کو سورج طلوع ہونے کے بعد کنکریاں مارنا مسنون ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذوالحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کی‘ اس کے بعد خوب روشنی ہو جانے تک ذکر و اذکار میں مشغول رہے‘ پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے اور سورج طلوع ہونے کے بعد بڑے جمرے پر کنکریاں ماریں۔ (صحیح مسلم‘ الحج‘ حدیث:۱۲۱۸‘ وسنن ابن ماجہ‘ المناسک‘ باب حجۃ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حدیث:۳۰۷۴)3. جن روایات میں سورج طلوع ہونے سے قبل کنکریاں مارنے کا ذکر ہے تو یہ صرف عورتوں ‘ بچوں اور غلاموں کے لیے ہے جو ان کی خدمت کے لیے ہوں۔ ان کے علاوہ دس ذوالحجہ کو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ طلوع فجر سے پہلے کنکریاں مارے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔واللّٰہ أعلم۔
تخریج : أخرجه أبوداود، المناسك، باب التعجيل من جمع، حديث:1940، والترمذي، الحج، حديث:893، وابن ماجه، المناسك، حديث:3025، وأحمد:1 /234، 277 "الحسن العريني أرسل عن ابن عباس" كما في التقريب (1252)، وللحديث شواهد ضعيفة. 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسندالإمام أحمد:۳ /۵۰۴‘ ۵۰۵‘ والإرواء للألباني:۴ /۲۷۶) 2. دس ذوالحجہ کو سورج طلوع ہونے کے بعد کنکریاں مارنا مسنون ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذوالحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کی‘ اس کے بعد خوب روشنی ہو جانے تک ذکر و اذکار میں مشغول رہے‘ پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے اور سورج طلوع ہونے کے بعد بڑے جمرے پر کنکریاں ماریں۔ (صحیح مسلم‘ الحج‘ حدیث:۱۲۱۸‘ وسنن ابن ماجہ‘ المناسک‘ باب حجۃ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حدیث:۳۰۷۴)3. جن روایات میں سورج طلوع ہونے سے قبل کنکریاں مارنے کا ذکر ہے تو یہ صرف عورتوں ‘ بچوں اور غلاموں کے لیے ہے جو ان کی خدمت کے لیے ہوں۔ ان کے علاوہ دس ذوالحجہ کو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ طلوع فجر سے پہلے کنکریاں مارے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔واللّٰہ أعلم۔