کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ نَوَاقِضِ الْوُضُوءِ صحيح عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه - قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَلَى عَهْدِهِ - يَنْتَظِرُونَ الْعِشَاءَ حَتَّى تَخْفِقَ رُؤُوسُهُمْ، ثُمَّ يُصَلُّونَ وَلَا يَتَوَضَّئُونَ. أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ. وَأَصْلُهُ فِي مُسْلِمٍ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عہد رسالت مآب میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نماز عشاء کا اتنا انتظار کرتے کہ غلبۂ نیند کی و جہ سے ان کے سر جھک جاتے۔ (مگر) پھر وہ ازسر نو وضو کیے بغیر نماز پڑھ لیتے۔ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے۔ اور دارقطنی نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور اس کی اصل مسلم میں ہے۔)
تشریح :
1. یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک انسان گہری نیند نہ سوئے اس وقت تک اس کا وضو نہیں ٹوٹتا۔ 2. اس سے پہلے حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی روایت گزشتہ باب میں گزر چکی ہے جو مطلق نیند سے وضو کے ٹوٹنے پر دلالت کرتی ہے۔ 3. اُس روایت کی روشنی میں اس روایت کو گہری نیند پر محمول کیا جائے گا یا یہ کہا جائے گا کہ اس حدیث میں نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے مراد مخصوص نیند (اونگھ) لی ہے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس نیند سے واقف تھے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس نیند سے بھی باخبر تھے جس سے وضو نہیں ٹوٹتا‘ اس لیے وضاحت اور بیان کی ضرورت نہیں سمجھی۔ بہر صورت یہ بات معلوم ہوئی کہ ٹیک یا تکیہ لگا کر سو جانے کی وجہ سے جبکہ انسان کا شعور اور احساس زائل ہو جائے تو ایسی نیند ناقض وضو ہو گی۔ اور عموماً شعور زائل ہو جاتا ہے بصورت دیگر اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ 4.ٹیک لگانے یا تکیے کا سہارا لینے کی حالت میں جسمانی جوڑ ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں پیٹ سے ہوا کے خروج کا غالب امکان ہوتا ہے‘ اسی بنیاد پر احتیاط کے پیش نظر وضو نئے سرے سے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ واللّٰہ أعلم بالصواب۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في الوضوء من النوم، حديث:200، والدارقطني:1 / 131، ومسلم، الصلاة، باب الدليل على أن نوم الجالس لا ينقض الوضوء، حديث:376.
1. یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک انسان گہری نیند نہ سوئے اس وقت تک اس کا وضو نہیں ٹوٹتا۔ 2. اس سے پہلے حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی روایت گزشتہ باب میں گزر چکی ہے جو مطلق نیند سے وضو کے ٹوٹنے پر دلالت کرتی ہے۔ 3. اُس روایت کی روشنی میں اس روایت کو گہری نیند پر محمول کیا جائے گا یا یہ کہا جائے گا کہ اس حدیث میں نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے مراد مخصوص نیند (اونگھ) لی ہے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس نیند سے واقف تھے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس نیند سے بھی باخبر تھے جس سے وضو نہیں ٹوٹتا‘ اس لیے وضاحت اور بیان کی ضرورت نہیں سمجھی۔ بہر صورت یہ بات معلوم ہوئی کہ ٹیک یا تکیہ لگا کر سو جانے کی وجہ سے جبکہ انسان کا شعور اور احساس زائل ہو جائے تو ایسی نیند ناقض وضو ہو گی۔ اور عموماً شعور زائل ہو جاتا ہے بصورت دیگر اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ 4.ٹیک لگانے یا تکیے کا سہارا لینے کی حالت میں جسمانی جوڑ ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں پیٹ سے ہوا کے خروج کا غالب امکان ہوتا ہے‘ اسی بنیاد پر احتیاط کے پیش نظر وضو نئے سرے سے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ واللّٰہ أعلم بالصواب۔