بلوغ المرام - حدیث 618

كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ صِفَةِ الْحَجِّ وَدُخُولِ مَكَّةَ ضعيف وَعَنْ يَعْلَى بْنَ أُمَيَّةَ - رضي الله عنه - قَالَ: طَافَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - مُضْطَبِعًا بِبُرْدٍ [ص:218] أَخْضَرَ. رَوَاهُ الْخَمْسَةُ إِلَّا النَّسَائِيَّ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ.

ترجمہ - حدیث 618

کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل باب: حج کا طریقہ اور مکہ میں داخل حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سبز چادر میں طواف کیا جس کو آپ نے دائیں بغل سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال رکھا تھا۔ (اسے نسائی کے سوا پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے‘ نیز سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں اسے سنداً ضعیف قرار دینے کے بعد لکھا ہے کہ سنن بیہقی کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح‘ حسن اور قوی قرار دیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۹ /۴۷۳‘ وصحیح سنن ابن ماجہ للألباني‘ رقم:۲۴۰۹) 2. اضطباع پہلے پہل عمرۃ القضاء میں کیا گیا کیونکہ اس وقت مشرکین کو یہ بتانا مقصود تھا کہ مسلمان جسمانی و بدنی طور پر کمزور نہیں ہیں۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق رمل اور اضطباع دونوں ہمیشہ کے لیے مسنون قرار پائے۔ اب اس طرح کے لباس کے علاوہ مردوں کے لیے دوسرے کسی بھی طرز و ڈھنگ کا لباس جائز نہیں‘ البتہ یہ اضطباع صرف طواف قدوم میں مسنون ہے۔ طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے وقت دونوں کندھے ڈھانک لینے چاہییں۔ 3. رمل اور اضطباع صرف مردوں کے لیے مشروع ہے عورتوں کے لیے نہیں۔ 4. احرام کے لیے ضروری نہیں کہ چادر سفید ہی ہو‘ دوسرے رنگ کے کپڑے میں بھی جائز ہے۔ صرف زرد رنگ ناپسندیدہ ہے جبکہ سفید افضل اور مستحب ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ ]ان کی کنیت ابوصفوان تمیمی ہے۔ مکہ کے رہنے والے تھے اور قریش کے حلیف تھے۔ مشہور و معروف صحابی ٔرسول ہیں۔ فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا۔ حنین‘ طائف اور تبوک کے معرکوں میں حاضر ہو کر داد شجاعت دیتے رہے۔ حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی جانب سے عامل مقرر کیے جاتے رہے۔ تقریباً پچاس برس کی عمر تک حیات رہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، المناسك، باب الاضطباع في الطواف، حديث:1883، والترمذي، الحج، حديث:859، وابن ماجه، المناسك، حديث:2954، وأحمد:4 /224. ابن جريج والثوري مدلسان وعنعنا. 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے‘ نیز سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں اسے سنداً ضعیف قرار دینے کے بعد لکھا ہے کہ سنن بیہقی کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح‘ حسن اور قوی قرار دیا ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۹ /۴۷۳‘ وصحیح سنن ابن ماجہ للألباني‘ رقم:۲۴۰۹) 2. اضطباع پہلے پہل عمرۃ القضاء میں کیا گیا کیونکہ اس وقت مشرکین کو یہ بتانا مقصود تھا کہ مسلمان جسمانی و بدنی طور پر کمزور نہیں ہیں۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق رمل اور اضطباع دونوں ہمیشہ کے لیے مسنون قرار پائے۔ اب اس طرح کے لباس کے علاوہ مردوں کے لیے دوسرے کسی بھی طرز و ڈھنگ کا لباس جائز نہیں‘ البتہ یہ اضطباع صرف طواف قدوم میں مسنون ہے۔ طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے وقت دونوں کندھے ڈھانک لینے چاہییں۔ 3. رمل اور اضطباع صرف مردوں کے لیے مشروع ہے عورتوں کے لیے نہیں۔ 4. احرام کے لیے ضروری نہیں کہ چادر سفید ہی ہو‘ دوسرے رنگ کے کپڑے میں بھی جائز ہے۔ صرف زرد رنگ ناپسندیدہ ہے جبکہ سفید افضل اور مستحب ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ ]ان کی کنیت ابوصفوان تمیمی ہے۔ مکہ کے رہنے والے تھے اور قریش کے حلیف تھے۔ مشہور و معروف صحابی ٔرسول ہیں۔ فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا۔ حنین‘ طائف اور تبوک کے معرکوں میں حاضر ہو کر داد شجاعت دیتے رہے۔ حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی جانب سے عامل مقرر کیے جاتے رہے۔ تقریباً پچاس برس کی عمر تک حیات رہے۔