بلوغ المرام - حدیث 617

كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ صِفَةِ الْحَجِّ وَدُخُولِ مَكَّةَ صحيح وَعَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ - رضي الله عنه - قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَيَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ مَعَهُ، وَيُقْبِّلُ الْمِحْجَنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 617

کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل باب: حج کا طریقہ اور مکہ میں داخل حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ کا طواف کرتے دیکھا ہے۔ آپ چھڑی سے‘ جو آپ کے پاس تھی‘ حجر اسود کو چھوتے اور پھر اس چھڑی کو بوسہ دیتے تھے۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ہجوم زیادہ ہو اور حجر اسود کو بوسہ دینا مشکل یا ناممکن نظر آئے تو چھڑی لگا کر اس چھڑی کو چوم لے۔ 2. مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’تو طاقتور اور زور آور آدمی ہے۔ حجر اسود تک رسائی حاصل کرنا تیرے لیے کوئی دشوار کام نہیں ہے مگر دھکم پیل سے کمزوروں کو اذیت اور تکلیف ہوتی ہے‘ اس لیے اگر تمھیں فارغ وقت میسر آجائے تو ہاتھ سے چھو لیا کرو‘ بصورت دیگر حجر اسود کے سامنے کھڑے ہو کر [لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَر] ہی کہہ لیا کرو۔‘‘ (مسند أحمد: ۱ /۲۸) 3. اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ مناسک حج ادا کرتے ہوئے دوسروں کو تکلیف و اذیت دینا جائز نہیں۔ 4. اگر حجر اسود کا استلام صرف ہاتھ کے اشارے سے ہو تو ہاتھ کو چومنا نہیں چاہیے کیونکہ ہاتھ اور چھڑی وغیرہ کو اس لیے بوسہ دیا جاتا ہے کہ وہ حجر اسود کے ساتھ لگ چکے ہوتے ہیں۔ راوئ حدیث : [حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ ] ان کا نام عامر بن واثلہ لیثی کنانی رضی اللہ عنہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آٹھ سال پائے۔ ۱۰۰ ہجری میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔ اور ایک قول کے مطابق ۱۰۲ ہجری میں وفات پائی۔ اور ایک قول ان کی وفات کے بارے میں ۱۱۰ ہجری کا بھی ہے۔ روئے زمین پر بسنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے یہ خوش قسمت صحابی ہیں۔
تخریج : أخرجه مسلم، الحج، باب جواز الطواف على بعير وغيره، حديث:1275. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ہجوم زیادہ ہو اور حجر اسود کو بوسہ دینا مشکل یا ناممکن نظر آئے تو چھڑی لگا کر اس چھڑی کو چوم لے۔ 2. مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’تو طاقتور اور زور آور آدمی ہے۔ حجر اسود تک رسائی حاصل کرنا تیرے لیے کوئی دشوار کام نہیں ہے مگر دھکم پیل سے کمزوروں کو اذیت اور تکلیف ہوتی ہے‘ اس لیے اگر تمھیں فارغ وقت میسر آجائے تو ہاتھ سے چھو لیا کرو‘ بصورت دیگر حجر اسود کے سامنے کھڑے ہو کر [لَا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَر] ہی کہہ لیا کرو۔‘‘ (مسند أحمد: ۱ /۲۸) 3. اس حدیث سے معلوم ہو رہا ہے کہ مناسک حج ادا کرتے ہوئے دوسروں کو تکلیف و اذیت دینا جائز نہیں۔ 4. اگر حجر اسود کا استلام صرف ہاتھ کے اشارے سے ہو تو ہاتھ کو چومنا نہیں چاہیے کیونکہ ہاتھ اور چھڑی وغیرہ کو اس لیے بوسہ دیا جاتا ہے کہ وہ حجر اسود کے ساتھ لگ چکے ہوتے ہیں۔ راوئ حدیث : [حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ ] ان کا نام عامر بن واثلہ لیثی کنانی رضی اللہ عنہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آٹھ سال پائے۔ ۱۰۰ ہجری میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔ اور ایک قول کے مطابق ۱۰۲ ہجری میں وفات پائی۔ اور ایک قول ان کی وفات کے بارے میں ۱۱۰ ہجری کا بھی ہے۔ روئے زمین پر بسنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے یہ خوش قسمت صحابی ہیں۔