بلوغ المرام - حدیث 616

كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ صِفَةِ الْحَجِّ وَدُخُولِ مَكَّةَ صحيح وَعَنْ عُمَرَ - رضي الله عنه: أَنَّهُ قَبَّلَ الْحَجَرَ [الْأَسْوَدَ] فَقَالَ: إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 616

کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل باب: حج کا طریقہ اور مکہ میں داخل حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا: مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تو پتھر ہے۔ تو کسی قسم کے نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ اسے نفع و نقصان دینے والا سمجھ کر نہیں دیا جاتا بلکہ یہ عمل تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی میں کیا جاتا ہے۔ 2. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے مشرکین کے اس باطل نظریے کی تردید مقصود تھی جو پتھروں کو بذات خود نفع و نقصان کا مختار و مالک سمجھتے تھے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الحج، باب ما ذكر في الحجر الأسود، حديث:1597، ومسلم، الحج، باب استحباب تقبيل الحجر الأسود في الطواف، حديث:1270. 1. اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حجر اسود کو بوسہ اسے نفع و نقصان دینے والا سمجھ کر نہیں دیا جاتا بلکہ یہ عمل تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی میں کیا جاتا ہے۔ 2. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے مشرکین کے اس باطل نظریے کی تردید مقصود تھی جو پتھروں کو بذات خود نفع و نقصان کا مختار و مالک سمجھتے تھے۔