كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ صِفَةِ الْحَجِّ وَدُخُولِ مَكَّةَ صحيح وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - حَجَّ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ، حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ، فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، فَقَالَ: ((اغْتَسِلِي وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ، وَأَحْرِمِي)).وَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ عَلَى الْبَيْدَاءِ أَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ: ((لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ)). حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ، فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا، ثُمَّ أَتَى مَقَامَ إِبْرَاهِيمَ فَصَلَّى، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ. ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الصَّفَا قَرَأَ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} [البقرة: 158] ((أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ)) فَرَقِيَ الصَّفَا، حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَوَحَّدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَقَالَ: ((لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ [وَحْدَهُ] أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ)). ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ، حَتَّى انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي [سَعَى] حَتَّى إِذَا صَعَدَتَا مَشَى إِلَى الْمَرْوَةِ فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ، كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا … فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. وَفِيهِ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ تَوَجَّهُوا إِلَى مِنَى، وَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَصَلَّى بِهَا الظُّهْرَ، وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ، وَالْعِشَاءَ، وَالْفَجْرَ، ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتْ الشَّمْسُ، فَأَجَازَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ، فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ فَنَزَلَ بِهَا. حَتَّى إِذَا زَاغَتْ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ، فَرُحِلَتْ لَهُ، فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِي، فَخَطَبَ النَّاسَ. ثُمَّ أَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا.ثُمَّ رَكِبَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَذَهَبَتْ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا، حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ، وَدَفَعَ، وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ، وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى: ((أَيُّهَا النَّاسُ، السَّكِينَةَ، السَّكِينَةَ)) ، كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا حَتَّى تَصْعَدَ.حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ، فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ، وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَصَلَّى الْفَجْرَ، حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ. ثُمَّ رَكِبَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَدَعَاهُ، وَكَبَّرَهُ، وَهَلَّلَهُ فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا. فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، حَتَّى أَتَى بَطْنَ مُحَسِّرَ فَحَرَّكَ قَلِيلًا، ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تَخْرُجُ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى، حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ، فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا، مِثْلَ حَصَى الْخَذْفِ، رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ، فَنَحَرَ، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ، فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ مُطَوَّلًا.
کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل
باب: حج کا طریقہ اور مکہ میں داخل
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو ہم آپ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ہم ذوالحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے بچے کو جنم دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’غسل کر کے ایک لنگوٹ باندھ لے اور احرام باندھ لے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ذوالحلیفہ کی) مسجد میں نماز پڑھی اور قصواء (اونٹنی) پر سوار ہو گئے یہاں تک کہ جب آپ بیداء کے برابر آئے تو آپ نے توحیدکا تلبیہ پکارا [لَـبَّیْکَ‘ اللّٰھُمَّ لَـبَّیْکَ لَـبَّیْکَ…لاَشَرِیکَ لَکَ] ’’حاضر ہوں‘ اے میرے اللہ! میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں‘تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ بلاشبہ سب تعریفیں اور نعمتیں تیری ہیں۔ اوربادشاہت بھی تیری ہے‘ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ یہاں تک کہ ہم بیت اللہ میں داخل ہوئے۔ آپ نے رکن (حجر اسود) کو بوسہ دیا‘ تین چکروں میں رمل کیا اور چار چکروں میں معمول کے مطابق چلے‘ پھر آپ مقام ابراہیم پر آئے اور نماز پڑھی‘ پھر رکن (حجر اسود) کی طرف واپس آئے اور اسے بوسہ دیا‘ پھر (مسجد حرام کے) دروازے سے صفا کی طرف نکلے۔ جب صفا کے نزدیک پہنچے تو یہ آیت پڑھی: ﴿اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ۲:۱۵۸) ’’بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘ (پھر فرمایا:) ’’میں (سعی کو) اس مقام سے شروع کرتا ہوں جہاں سے اللہ نے شروع کیا ہے۔‘‘ (میں اسی سے شروع کرتا ہوں جس کا نام اللہ نے پہلے لیا ہے۔) پھر آپ صفا پر چڑھے یہاں تک کہ آپ نے بیت اللہ کو دیکھا‘ پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی وحدانیت اور کبریائی بیان کی اور کہا: [لاَ إلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ‘ وَحْدَہُ‘ لاَشَرِیکَ لَہُ... وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ] ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ یکتا ہے‘ کوئی اس کا شریک نہیں۔ بادشاہی اور سب خوبیاں اسی کی ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور کفار کی جماعتوں کو اسی اکیلے نے شکست دی۔‘‘ پھر ان (الفاظ کو پہلی بار اور دوسری بار پڑھنے) کے درمیان دعا مانگی۔ تین بار ایسا کیا‘ پھر صفا سے اترکر مروہ کی طرف چلے حتی کہ جب آپ کے قدم وادی کے نشیب میں پڑے تو آپ دوڑنے لگے یہاں تک کہ آپ بلند جگہ پہنچے تو مروہ کی طرف پیدل چلنے لگے‘ پھر مروہ پر وہی کچھ کیا جو صفا پر کیا تھا‘ پھر حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ساری حدیث بیان کی جس میں یہ ہے کہ جب ترویہ کا دن (۸ ذوالحجہ) ہوا تو لوگ منیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے (اور منی پہنچے)۔ آپ نے وہاں ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور صبح کی نمازیں پڑھیں‘ پھر تھوڑی دیر ٹھہرے رہے یہاں تک کہ سورج نکل آیا تو وہاں سے روانہ ہوئے اور (مزدلفہ سے گزرتے ہوئے) عرفات میں پہنچے تو وہاں ایک خیمہ لگا ہوا پایا جو آپ کے لیے نمرہ میں لگایا گیا تھا‘ آپ وہاں تشریف فرما ہوئے‘ پھر جب سورج ڈھلنے لگا تو آپ نے قصواء پر پالان رکھنے کا حکم دیا۔ آپ سوار ہو کر وادی کے نشیب میں آئے اور لوگوں کو خطبہ دیا‘ پھر اذان دلوائی‘ پھر اقامت کہلواکر نماز ظہر ادا کی‘ پھر اقامت کہلواکر عصر کی نماز پڑھی اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہ پڑھی‘ پھر سوار ہو کر ٹھہرنے کی جگہ پر پہنچے تو اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ پتھروں کی طرف کر دیا اور پیدل چلنے والوں کے راستے کو اپنے سامنے کرلیا اور اپنا رخ قبلے کی جانب کر لیا‘ پھر آپ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور تھوڑی سی زردی ختم ہو گئی۔ جب سورج مکمل طور پر غروب ہوگیا تو آپ (اسی حالت میں) واپس ہوئے۔ آپ نے قصواء کی مہار اتنی کھینچ رکھی تھی کہ اس کا سر آپ کے پالان کے اگلے ابھرے ہوئے حصے کو پہنچتا تھا اور آپ اپنے داہنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے: ’’لوگو! آرام سے چلو‘ آرام سے چلو۔‘‘ اور جب بھی آپ کسی ٹیلے پر آتے تو مہار تھوڑی سی ڈھیلی کردیتے حتی کہ وہ (اونٹنی) اوپر چڑھ جاتی یہاں تک کہ آپ مزدلفہ تشریف لائے اور وہاں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور دونوں کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی‘ پھر آپ لیٹ گئے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ جب صبح کا وقت ظاہر ہوا تو آپ نے اذان اور اقامت سے فجر کی نماز پڑھی‘ پھر سوار ہو کر مشعر حرام پر آئے‘ چنانچہ آپ قبلہ رو ہوئے‘ دعا کی اور تکبیر و تہلیل کہتے رہے۔ خوب روشنی ہونے تکآپ وہاں ٹھہرے رہے‘ پھر سورج نکلنے سے پہلے واپس ہو کر وادی ٔ محسر کے نشیب میں آئے تو سواری کو کچھ تیز کر دیا‘ پھر درمیانی راستے پر چلے جو جمرۂ کبریٰ (بڑے شیطان) پر پہنچتا ہے‘ پھر آپ اس جمرے پر آئے جو درخت کے پاس ہے اور اسے سات کنکریاں وادی کے نشیب سے ماریں۔ ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے۔ ان میں سے ہر کنکری خذف (لوبیا اور چنے وغیرہ کے دانے) کے برابر تھی‘ پھر آپ قربان گاہ کی طرف گئے اور وہاں قربانی کی‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے‘ پھر مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی۔ (اسے مسلم نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔)
تخریج : أخرجه مسلم، الحج، باب حجة النبي صلى الله عليه وسلم، حديث:1218.