كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ الْإِحْرَامِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ صحيح وَعَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ اللَّيْثِيِّ - رضي الله عنه: أَنَّهُ أَهْدَى لِرَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - حِمَارًا وَحْشِيًّا، وَهُوَ بِالْأَبْوَاءِ، أَوْ بِوَدَّانَ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: ((إِنَّا لَمْ نَرُدَّهُ عَلَيْكَ إِلَّا أَنَّا حُرُمٌ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل
باب: احرام اور اس سے متعلقہ امور کا بیان
حضرت صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وحشی گدھا بطور تحفہ بھیجا جبکہ آپ ’’ابواء‘‘ یا ’’ودان‘‘ مقام پر تھے۔ آپ نے وہ انھیں واپس کر دیا اور فرمایا: ’’ہم نے یہ صرف اس لیے واپس کیا ہے کہ ہم احرام والے ہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح :
یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم کے لیے شکار کا گوشت مطلق طور پر حرام ہے‘ خواہ اس کی اجازت یا اشارے وغیرہ سے شکار نہ بھی کیا گیا ہو جبکہ پہلی حدیث میں اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان تطبیق یہ دی گئی ہے کہ شکار جب محرم کے لیے کیا گیا ہو‘ یعنی محرم کو شکار کا گوشت کھلانے کی نیت سے شکار کیا گیا ہو تو اس کا کھانا بھی محرم کے لیے حرام ہے گو اس نے اس کا اشارہ وغیرہ بھی نہ کیا ہو کیونکہ سنن ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث میں مروی ہے کہ جب میں نے آپ سے عرض کیا کہ جناب یہ شکار میں نے آپ کے لیے کیا ہے تو آپ نے اس میں سے کچھ بھی تناول نہ فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ‘ المناسک‘ حدیث:۳۰۹۳) اسی طرح ترمذی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’حالت احرام میں زمین کا شکار تمھارے لیے حلال ہے بشرطیکہ تم نے اسے شکار نہ کیا ہو یا تمھارے لیے وہ شکار نہ کیا گیا ہو۔‘‘ (جامع الترمذي‘ الحج‘ باب ماجاء في أکل الصید للمحرم‘ حدیث:۸۴۶) جس سے معلوم ہوا کہ شکار جب محرم کے حکم سے یا اس کے اشارے وغیرہ سے کیا گیا ہو یا شکار محرم کی ضیافت کے لیے کیا گیا ہو تو اس کے لیے اس کا کھانا ناجائز ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو محرم شکار کا گوشت کھا سکتا ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت صعب رضی اللہ عنہ ] ’’صاد‘‘ پر زبر اور ’’عین‘‘ ساکن ہے۔ والد کا نام جثامہ (’’جیم‘‘ پر زبر اور ’’ثا‘‘ مشدد) ہے۔ لیث قبیلے سے تھے۔ ودان اور ابواء میں رہتے تھے۔ ان کی حدیث حجازیوں میں شمار ہوتی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کا انتقال ہوا ۔بعض کا قول ہے کہ خلافت عثمان رضی اللہ عنہ تک زندہ رہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، جزاء الصيد، باب إذا أهدى للمحرم حمارًا وحشيًا، حديث:1825، ومسلم، الحج، باب تحريم الصيد للمحرم، حديث:1193.
یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم کے لیے شکار کا گوشت مطلق طور پر حرام ہے‘ خواہ اس کی اجازت یا اشارے وغیرہ سے شکار نہ بھی کیا گیا ہو جبکہ پہلی حدیث میں اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان تطبیق یہ دی گئی ہے کہ شکار جب محرم کے لیے کیا گیا ہو‘ یعنی محرم کو شکار کا گوشت کھلانے کی نیت سے شکار کیا گیا ہو تو اس کا کھانا بھی محرم کے لیے حرام ہے گو اس نے اس کا اشارہ وغیرہ بھی نہ کیا ہو کیونکہ سنن ابن ماجہ میں صحیح سند کے ساتھ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث میں مروی ہے کہ جب میں نے آپ سے عرض کیا کہ جناب یہ شکار میں نے آپ کے لیے کیا ہے تو آپ نے اس میں سے کچھ بھی تناول نہ فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ‘ المناسک‘ حدیث:۳۰۹۳) اسی طرح ترمذی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’حالت احرام میں زمین کا شکار تمھارے لیے حلال ہے بشرطیکہ تم نے اسے شکار نہ کیا ہو یا تمھارے لیے وہ شکار نہ کیا گیا ہو۔‘‘ (جامع الترمذي‘ الحج‘ باب ماجاء في أکل الصید للمحرم‘ حدیث:۸۴۶) جس سے معلوم ہوا کہ شکار جب محرم کے حکم سے یا اس کے اشارے وغیرہ سے کیا گیا ہو یا شکار محرم کی ضیافت کے لیے کیا گیا ہو تو اس کے لیے اس کا کھانا ناجائز ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو محرم شکار کا گوشت کھا سکتا ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت صعب رضی اللہ عنہ ] ’’صاد‘‘ پر زبر اور ’’عین‘‘ ساکن ہے۔ والد کا نام جثامہ (’’جیم‘‘ پر زبر اور ’’ثا‘‘ مشدد) ہے۔ لیث قبیلے سے تھے۔ ودان اور ابواء میں رہتے تھے۔ ان کی حدیث حجازیوں میں شمار ہوتی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کا انتقال ہوا ۔بعض کا قول ہے کہ خلافت عثمان رضی اللہ عنہ تک زندہ رہے۔