كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ الْإِحْرَامِ وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ صحيح وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ - رضي الله عنه - فِي قِصَّةِ صَيْدِهِ الْحِمَارَ الْوَحْشِيَّ، وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - لِأَصْحَابِهِ، وَكَانُوا مُحْرِمِينَ: ((هَلْ مِنْكُمْ أَحَدٌ أَمَرَهُ أَوْ أَشَارَ إِلَيْهِ بِشَيْءٍ؟)) قَالُوا: لَا. قَالَ: ((فَكُلُوا مَا بَقِيَ مِنْ لَحْمِهِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل
باب: احرام اور اس سے متعلقہ امور کا بیان
حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے… ان کے جنگلی گدھے کو شکار کرنے کے قصے میں جبکہ انھوں نے احرام نہیں باندھا تھا… مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے‘ جو احرام والے تھے‘ فرمایا: ’’کیا تم میں سے کسی نے اسے حکم دیا تھا یا اس کی طرف کسی قسم کا اشارہ کیا تھا؟‘‘ انھوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کے گوشت سے جو بچ گیا ہے اسے کھا لو۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح :
1. اس قصے کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر کے لیے نکلے‘ مگر اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا‘ البتہ ان کے ساتھی احرام کی حالت میں تھے۔ جب انھوں نے وحشی گدھا دیکھا تو اسے نظر انداز کر دیا۔ جب ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوگئے اور ساتھیوں سے کہا کہ میری لاٹھی پکڑاؤ‘ انھوں نے اس سے انکار کر دیا‘ پھر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اس پر حملہ آور ہوئے اور اسے زخمی کر دیا۔ ذبح کر کے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا گوشت کھایا اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھایا مگر پھر وہ پریشان ہوگئے۔ بالآخر جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے تو آپ سے یہ سارا ماجرا عرض کیا جس کا جواب اس روایت میں مذکور ہے۔ 2. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جنگلی جانور کا شکار جب غیر محرم کرے اور محرم نے اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد نہ کی ہو اور نہ اس بارے میں کوئی اشارہ ہی کیا ہو تو محرم بھی اس میں سے کھا سکتا ہے مگر اس بارے میں مزید تفصیل ہے جو آئندہ حدیث کے تحت آرہی ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، جزاء الصيد، باب لا يشير المحرم إلى الصيد، حديث:1824، ومسلم، الحج، باب تحريم الصيد للمحرم، حديث:1196.
1. اس قصے کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر کے لیے نکلے‘ مگر اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا‘ البتہ ان کے ساتھی احرام کی حالت میں تھے۔ جب انھوں نے وحشی گدھا دیکھا تو اسے نظر انداز کر دیا۔ جب ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوگئے اور ساتھیوں سے کہا کہ میری لاٹھی پکڑاؤ‘ انھوں نے اس سے انکار کر دیا‘ پھر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اس پر حملہ آور ہوئے اور اسے زخمی کر دیا۔ ذبح کر کے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس کا گوشت کھایا اور ان کے ساتھیوں نے بھی کھایا مگر پھر وہ پریشان ہوگئے۔ بالآخر جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے تو آپ سے یہ سارا ماجرا عرض کیا جس کا جواب اس روایت میں مذکور ہے۔ 2. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جنگلی جانور کا شکار جب غیر محرم کرے اور محرم نے اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد نہ کی ہو اور نہ اس بارے میں کوئی اشارہ ہی کیا ہو تو محرم بھی اس میں سے کھا سکتا ہے مگر اس بارے میں مزید تفصیل ہے جو آئندہ حدیث کے تحت آرہی ہے۔