كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ وَصِفَتِهِ صحيح عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - بِالْحَجِّ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَحَلَّ، وَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَلَمْ يَحِلُّوا حَتَّى كَانَ يَوْمَ النَّحْرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل
باب: احرام کی اقسام اور صفت کا بیان
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال نکلے‘ ہم میں سے بعض وہ تھے جنھوں نے عمرے کے لیے تلبیہ کہا اور ہم میں سے کچھ وہ تھے جنھوں نے حج اور عمرے دونوں کے لیے تلبیہ کہا اور ہم میں سے بعض وہ تھے جنھوں نے حج کے لیے لبیک پکارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج کا تلبیہ پکارا‘ چنانچہ جنھوں نے عمرے کے لیے لبیک کہا تھا وہ (طواف کے بعد) حلال ہوگئے‘ یعنی احرام کھول دیا۔ اور جنھوں نے حج کے لیے لبیک کہا یا حج اور عمرے کو جمع کیا تھا وہ حلال نہ ہوئے یہاں تک کہ قربانی کا دن ہوا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج کی تین قسمیں ہیں: حج قران‘ حج تمتع اور حج افراد۔ ان تینوں میں سے افضل کون سا حج ہے؟ اس کی بابت اختلاف ہے‘ بعض حج قران کو افضل قرار دیتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہی حج پسند کیا۔ اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس پر نفیس بحث کی ہے۔ بعض حج تمتع کو افضل کہتے ہیں کہ اس میں سہولت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرحلے پر اس کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ اور بعض حضرات حج افراد کو افضل قرار دیتے ہیں مگر دلائل کے اعتبار سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حج تمتع ہی افضل ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الحيض، باب كيف تهل الحائض بالحج والعمرة، حديث:319، ومسلم، الحج، باب بيان وجوه الإحرام...، حديث:1211.
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج کی تین قسمیں ہیں: حج قران‘ حج تمتع اور حج افراد۔ ان تینوں میں سے افضل کون سا حج ہے؟ اس کی بابت اختلاف ہے‘ بعض حج قران کو افضل قرار دیتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہی حج پسند کیا۔ اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس پر نفیس بحث کی ہے۔ بعض حج تمتع کو افضل کہتے ہیں کہ اس میں سہولت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرحلے پر اس کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔ اور بعض حضرات حج افراد کو افضل قرار دیتے ہیں مگر دلائل کے اعتبار سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حج تمتع ہی افضل ہے۔ واللّٰہ أعلم۔