بلوغ المرام - حدیث 591

كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ الْمَوَاقِيتِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - وَقَّتَ لِأَهْلِ الْعِرَاقِ ذَاتَ عِرْقٍ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ. وَأَصْلُهُ عِنْدَ مُسْلِمٍ مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ إِلَّا أَنَّ رَاوِيَهُ شَكَّ فِي رَفْعِهِ. وَفِي الْبُخَارِيِّ: أَنَّ عُمَرَ هُوَ الَّذِي وَقَّتَ ذَاتَ عِرْقٍ. وَعِنْدَ أَحْمَدَ، وَأَبِي دَاوُدَ، وَالتِّرْمِذِيِّ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - وَقَّتَ لِأَهْلِ الْمَشْرِقِ الْعَقِيقَ.

ترجمہ - حدیث 591

کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل باب: (احرام کے) میقات کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر کیا۔ (اسے ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے مگر اس کے راوی نے اس کے مرفوع ہونے میں شک کیا ہے۔) اور صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں جنھوں نے ذات عرق کو میقات مقرر کیا تھا۔ اور احمد‘ ابوداود اور ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق والوں کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا تھا۔
تشریح : 1. یاد رہے کہ وادیٔ مرالظھران جو آج کل وادیٔ فاطمہ کے نام سے مشہور و معروف ہے‘ وہ طائف کے سامنے مکہ کی مشرقی جانب سے شروع ہوتی ہے اور مغرب میں جدہ کے قریب اس کی جنوبی سمت بحر احمر پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ اس وادی کے مشرق میں دو کنارے ہیں۔ ایک جنوبی کنارہ جو طائف کے راستے میں بڑی وادی کے پاس نخلہ یمانیہ سے پہلے ہے اور اسی کو قرن المنازل کہتے ہیں‘ اہل طائف اور اہل نجد جب مکہ کا قصد کرتے ہیں تو وہ یہیں سے گزرتے ہیں۔ اور دوسرا شمالی کنارہ ضریبہ کے قریب ہے جسے ذات عرق کہتے ہیں‘ جہاں سے اہل عراق اور اہل نجد شمالی گزرتے ہیں اور یہ دونوں کنارے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان بہت مسافت ہے اور دونوں کی یہ مسافت مکہ مکرمہ سے ایک جیسی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذات عرق کو میقات مقرر کرنے میں اجتہاد سے کام لیا جو علاقے والوں کی ضرورت اور شریعت میں آسانی کے عین مطابق تھا‘ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقررہ میقات کے موافق ہوا تو گویا نور علی نور کا مصداق ہوا۔ 2. یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ جو شخص ایسے راستے پر چلے جہاں ان پانچوں میقات میں سے کوئی ایک بھی واقع نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ جونسے میقات کے برابر سے گزرے وہاں سے احرام باندھ لے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی میقات کے محاذ اور برابری کی وجہ ہی سے ذات عرق کو اہل عراق کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور تمام علماء اس اصول و ضابطے پر متفق ہیں۔ محاذات اور برابری کا مفہوم یہ ہے کہ میقات آدمی کے دائیں یا بائیں جانب واقع ہورہا ہو اس حالت میں کہ وہ مکہ کی طرف جانے والا ہو۔ اس کی وضاحت یوں سمجھیے کہ جب ہم ان پانچوں میقات کو ایک خط کے ذریعے سے ملائیں تو مکہ مکرمہ کو ہر جانب سے وہ خط گھیرے میں لے لے گا‘ لہٰذا جب بھی کوئی شخص مکہ مکرمہ کی طرف ان میقات کے علاوہ کسی بھی جگہ سے آئے تو لازمی ہے کہ وہ اس خط پر سے گزرے گا جو دوسرے میقات سے ملا رہا ہوگا۔ یہ خط ہی دراصل میقات کے محاذ اور برابر کا خط ہے‘ اس لیے حاجی جب اس خط سے باہر ہوگا وہ آفاق میں ہوگا‘ اس پر احرام واجب نہیں مگر جب اس خط کے پاس سے گزرے گا تو وہ میقات کے محاذ پر ہوگا‘ اس لیے اسے بغیر احرام کے آگے بڑھنا جائز نہیں ہوگا‘ پھر یہ تمام میقات خشکی پر ہیں اور انھیں ملانے والے خطوط بھی خشکی پر ہوں گے‘ لہٰذا جب تک کوئی شخص بحری جہاز کے ذریعے سے سمندر میں سفر کر رہا ہوگا وہ ان میقات کے برابر نہیں ہوگا۔ یہ صورت تو تبھی ہوگی جب وہ سمندری سفر سے فارغ ہو کر خشکی کے راستے پر پڑے گا۔ ہماری تحقیق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان اور بھارت سے جو حجاج کرام بذریعہ بحری جہاز حج کرنے کے لیے جاتے ہیں‘ ان پر جدہ تک پہنچنے سے پہلے احرام باندھنا واجب نہیں کیونکہ وہ سمندری سفر میں نہ تو میقات سے گزرے ہیں اور نہ کسی میقات کے برابر ہی سے گزرے ہیں۔ ان کا جہاز ابھی یلملم اور اس کے محاذات سے دور آفاق میں حدود میقات سے تقریباً ایک سو میل کی مسافت پر ہوتا ہے تو احرام باندھ لیتے ہیں‘ یہ لازمی نہیں ہے۔ ان کی مثال تو ابھی اس شخص کی سی ہے جو خرمہ سے طائف یا لیث سے طائف جا رہا ہے یا مدینہ طیبہ سے یا خیبر سے ینبع کی طرف ذوالحلیفہ کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے سے جا رہا ہوتو بلاشبہ میقات اس کے دائیں یا بائیں جانب آئے گا لیکن ابھی وہ میقات کے برابر نہیں آیا کیونکہ ابھی وہ حدود میقات سے پیچھے ہے۔ اسی طرح بحری جہاز پر سفر کرنے والا جب تک سمندر میں رہے گا وہ حدود میقات سے پیچھے ہوگا‘ اس کے برابر قطعاً نہیں ہوگا تاآنکہ جدہ پہنچ کر اترے کیونکہ جو خط یلملم اور جحفہ کو ملاتا ہے‘ وہ سمندر کے قریب جدہ سے کچھ آگے مکہ مکرمہ کی جانب پڑتا ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، المناسك، باب في المواقيت، حديث:1739، والنسائي، مناسك الحج، حديث:2657، وأصله من حديث جابر عند مسلم، الحج، حديث:1183، وأثر عمر أخرجه البخاري، الحج، حديث:1531، وحديث ابن عباس أخرجه أبوداود، المناسك، حديث:1740، والترمذي، الحج، حديث:832، وأحمد:1 /344، تفردبه يزيد بن أبي زياد وهو ضعيف ملدس مختلط. 1. یاد رہے کہ وادیٔ مرالظھران جو آج کل وادیٔ فاطمہ کے نام سے مشہور و معروف ہے‘ وہ طائف کے سامنے مکہ کی مشرقی جانب سے شروع ہوتی ہے اور مغرب میں جدہ کے قریب اس کی جنوبی سمت بحر احمر پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ اس وادی کے مشرق میں دو کنارے ہیں۔ ایک جنوبی کنارہ جو طائف کے راستے میں بڑی وادی کے پاس نخلہ یمانیہ سے پہلے ہے اور اسی کو قرن المنازل کہتے ہیں‘ اہل طائف اور اہل نجد جب مکہ کا قصد کرتے ہیں تو وہ یہیں سے گزرتے ہیں۔ اور دوسرا شمالی کنارہ ضریبہ کے قریب ہے جسے ذات عرق کہتے ہیں‘ جہاں سے اہل عراق اور اہل نجد شمالی گزرتے ہیں اور یہ دونوں کنارے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان بہت مسافت ہے اور دونوں کی یہ مسافت مکہ مکرمہ سے ایک جیسی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذات عرق کو میقات مقرر کرنے میں اجتہاد سے کام لیا جو علاقے والوں کی ضرورت اور شریعت میں آسانی کے عین مطابق تھا‘ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقررہ میقات کے موافق ہوا تو گویا نور علی نور کا مصداق ہوا۔ 2. یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ جو شخص ایسے راستے پر چلے جہاں ان پانچوں میقات میں سے کوئی ایک بھی واقع نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ جونسے میقات کے برابر سے گزرے وہاں سے احرام باندھ لے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی میقات کے محاذ اور برابری کی وجہ ہی سے ذات عرق کو اہل عراق کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور تمام علماء اس اصول و ضابطے پر متفق ہیں۔ محاذات اور برابری کا مفہوم یہ ہے کہ میقات آدمی کے دائیں یا بائیں جانب واقع ہورہا ہو اس حالت میں کہ وہ مکہ کی طرف جانے والا ہو۔ اس کی وضاحت یوں سمجھیے کہ جب ہم ان پانچوں میقات کو ایک خط کے ذریعے سے ملائیں تو مکہ مکرمہ کو ہر جانب سے وہ خط گھیرے میں لے لے گا‘ لہٰذا جب بھی کوئی شخص مکہ مکرمہ کی طرف ان میقات کے علاوہ کسی بھی جگہ سے آئے تو لازمی ہے کہ وہ اس خط پر سے گزرے گا جو دوسرے میقات سے ملا رہا ہوگا۔ یہ خط ہی دراصل میقات کے محاذ اور برابر کا خط ہے‘ اس لیے حاجی جب اس خط سے باہر ہوگا وہ آفاق میں ہوگا‘ اس پر احرام واجب نہیں مگر جب اس خط کے پاس سے گزرے گا تو وہ میقات کے محاذ پر ہوگا‘ اس لیے اسے بغیر احرام کے آگے بڑھنا جائز نہیں ہوگا‘ پھر یہ تمام میقات خشکی پر ہیں اور انھیں ملانے والے خطوط بھی خشکی پر ہوں گے‘ لہٰذا جب تک کوئی شخص بحری جہاز کے ذریعے سے سمندر میں سفر کر رہا ہوگا وہ ان میقات کے برابر نہیں ہوگا۔ یہ صورت تو تبھی ہوگی جب وہ سمندری سفر سے فارغ ہو کر خشکی کے راستے پر پڑے گا۔ ہماری تحقیق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان اور بھارت سے جو حجاج کرام بذریعہ بحری جہاز حج کرنے کے لیے جاتے ہیں‘ ان پر جدہ تک پہنچنے سے پہلے احرام باندھنا واجب نہیں کیونکہ وہ سمندری سفر میں نہ تو میقات سے گزرے ہیں اور نہ کسی میقات کے برابر ہی سے گزرے ہیں۔ ان کا جہاز ابھی یلملم اور اس کے محاذات سے دور آفاق میں حدود میقات سے تقریباً ایک سو میل کی مسافت پر ہوتا ہے تو احرام باندھ لیتے ہیں‘ یہ لازمی نہیں ہے۔ ان کی مثال تو ابھی اس شخص کی سی ہے جو خرمہ سے طائف یا لیث سے طائف جا رہا ہے یا مدینہ طیبہ سے یا خیبر سے ینبع کی طرف ذوالحلیفہ کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے سے جا رہا ہوتو بلاشبہ میقات اس کے دائیں یا بائیں جانب آئے گا لیکن ابھی وہ میقات کے برابر نہیں آیا کیونکہ ابھی وہ حدود میقات سے پیچھے ہے۔ اسی طرح بحری جہاز پر سفر کرنے والا جب تک سمندر میں رہے گا وہ حدود میقات سے پیچھے ہوگا‘ اس کے برابر قطعاً نہیں ہوگا تاآنکہ جدہ پہنچ کر اترے کیونکہ جو خط یلملم اور جحفہ کو ملاتا ہے‘ وہ سمندر کے قریب جدہ سے کچھ آگے مکہ مکرمہ کی جانب پڑتا ہے۔