كِتَابُ الْحَجِّ بَابُ فَضْلِهِ وَبَيَانِ مَنْ فُرِضَ عَلَيْهِ صحيح وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم. فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ مَنْ خَثْعَمَ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَجَعَلَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ. فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا، لَا يَثْبُتُ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ? قَالَ: ((نَعَمْ))، وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَفْظُ لِلْبُخَارِيِّ.
کتاب: حج سے متعلق احکام و مسائل
باب: حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے‘ انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے کہ قبیلۂ خثعم کی ایک عورت آئی تو حضرت فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی‘ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل رضی اللہ عنہ کا منہ دوسری جانب کر دیا۔ اس عورت نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! بے شک حج جو بندوں پر اللہ کا فریضہ ہے اس نے میرے بوڑھے باپ کو پا لیا ہے مگر وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ اور یہ واقعہ حجۃ الوداع کا ہے۔ (بخاری و مسلم- یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس پر حج فرض ہو مگر وہ کسی مستقل بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے حج کرنے کی طاقت نہ پاتا ہو تو اس کی طرف سے حج بدل جائز ہے۔ لیکن عارضی بیماری (جس کے دور ہو جانے کا امکان ہو) میں نیابت درست نہیں۔ یہ شرط فرض حج کے لیے ہے‘ نفلی حج کے لیے اس میں بلا شرط نیابت جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہما اللہ کا یہی موقف ہے۔ اور حج بدل کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس کا قریبی ہی نائب بنے۔ وضاحت: [حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما ] یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کی والدہ کا نام أم الفضل لبابۃ الکبرٰی بنت الحارث الھلالیۃ تھا۔ نہایت حسین و جمیل تھے۔ معرکۂحنین میں آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے میں بھی شریک تھے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑے یہی تھے۔ جہاد کے لیے شام تشریف لے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ طاعون عمواس کے سال اردن کے قریب ۱۸ ہجری میں انتقال ہوا۔ بعض نے کہا ہے کہ یرموک کے دن شہید ہوئے اور بعض نے کہا کہ دمشق میں وفات پائی جبکہ ان کے جسم پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر تھی۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الحج، باب وجوب الحج وفضله، حديث:1513، ومسلم، الحج، باب الحج عن العاجز، حديث:1334.
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس پر حج فرض ہو مگر وہ کسی مستقل بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے حج کرنے کی طاقت نہ پاتا ہو تو اس کی طرف سے حج بدل جائز ہے۔ لیکن عارضی بیماری (جس کے دور ہو جانے کا امکان ہو) میں نیابت درست نہیں۔ یہ شرط فرض حج کے لیے ہے‘ نفلی حج کے لیے اس میں بلا شرط نیابت جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد رحمہما اللہ کا یہی موقف ہے۔ اور حج بدل کے لیے بہتر یہی ہے کہ اس کا قریبی ہی نائب بنے۔ وضاحت: [حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما ] یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کی والدہ کا نام أم الفضل لبابۃ الکبرٰی بنت الحارث الھلالیۃ تھا۔ نہایت حسین و جمیل تھے۔ معرکۂحنین میں آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے میں بھی شریک تھے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سب سے بڑے یہی تھے۔ جہاد کے لیے شام تشریف لے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ طاعون عمواس کے سال اردن کے قریب ۱۸ ہجری میں انتقال ہوا۔ بعض نے کہا ہے کہ یرموک کے دن شہید ہوئے اور بعض نے کہا کہ دمشق میں وفات پائی جبکہ ان کے جسم پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر تھی۔