بلوغ المرام - حدیث 58

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ صحيح وَعَنْ ثَوْبَانَ - رضي الله عنه - قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - سَرِيَّةً، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَمْسَحُوا عَلَى الْعَصَائِبِ - يَعْنِي: الْعَمَائِمَ - وَالتَّسَاخِينِ- يَعْنِي: الْخِفَافَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ.

ترجمہ - حدیث 58

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: موزوں پر مسح کرنے کے احکام ومسائل حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ (چھوٹا لشکر) روانہ فرمایا اور انھیں پگڑیوں اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ (اسے احمد اور ابوداود نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح قرار دیاہے۔)
تشریح : 1. پٹیوں سے مراد ایسی پٹیاں ہیں جو زخموں پر باندھی جاتی ہیں یا کسی کا بازو یا ٹانگ ٹوٹنے کی صورت میں لکڑی کی پھٹیاں رکھ کر باندھ دیتے ہیں۔ انھی کو عصائب کہا جاتا ہے۔ 2. جنگ کے لیے روانہ کرتے وقت اس قسم کا حکم دینا بظاہر تو یہی معنی رکھتا ہے کہ معرکہ آرائی کے دوران میں زخمی حضرات اعضائے وضو دھونے کی بجائے زخم کی پٹیوں ہی پر مسح کر لیا کریں۔ 3.ابوداود میں ہے کہ سریہ سے واپسی پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سردی کی شکایت کی تو آپ نے پگڑی اور موزوں پر مسح کا حکم دیا۔ (سنن أبي داود‘ الطہارۃ‘ باب المسح علی العمامۃ‘ حدیث:۱۴۶) راویٔ حدیث: [حضرت ثوبان بن بُجْدُد بن جحدر رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ ثوبان ’’ثا‘‘ پر فتحہ اور ’’واؤ‘‘ ساکن کے ساتھ ہے۔ بجدد میں ’’با‘‘ مضموم‘ جیم ساکن‘ دال اول مضموم اور دال ثانی ساکن ہے۔ اور جحدر میں ’’جیم‘‘ پر فتحہ‘ ’’حا‘‘ ساکن اور ’’دال‘‘ پر فتحہ ہے۔ یہ سراۃ کے باشندے تھے جو مکہ و مدینہ کے مابین ایک جگہ کا نام ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حمیر قبیلے میں سے تھے۔ زندگی بھر حضر و سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے اور ہر طرح کی خدمت بجا لاتے رہے۔ ان کو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید کر آزادی سے ہمکنار کیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد شام میں رہائش پذیر ہوگئے۔ شام سے پھر حمص کی طرف نقل مکانی کر گئے اور وہیں ۵۴ ہجری میں وفات پائی۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الطهارة، باب المسح على العمامة، حديث: 146، وأحمد: 5 / 277، والحاكم في المستدرك:1 / 169. 1. پٹیوں سے مراد ایسی پٹیاں ہیں جو زخموں پر باندھی جاتی ہیں یا کسی کا بازو یا ٹانگ ٹوٹنے کی صورت میں لکڑی کی پھٹیاں رکھ کر باندھ دیتے ہیں۔ انھی کو عصائب کہا جاتا ہے۔ 2. جنگ کے لیے روانہ کرتے وقت اس قسم کا حکم دینا بظاہر تو یہی معنی رکھتا ہے کہ معرکہ آرائی کے دوران میں زخمی حضرات اعضائے وضو دھونے کی بجائے زخم کی پٹیوں ہی پر مسح کر لیا کریں۔ 3.ابوداود میں ہے کہ سریہ سے واپسی پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے سردی کی شکایت کی تو آپ نے پگڑی اور موزوں پر مسح کا حکم دیا۔ (سنن أبي داود‘ الطہارۃ‘ باب المسح علی العمامۃ‘ حدیث:۱۴۶) راویٔ حدیث: [حضرت ثوبان بن بُجْدُد بن جحدر رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ ثوبان ’’ثا‘‘ پر فتحہ اور ’’واؤ‘‘ ساکن کے ساتھ ہے۔ بجدد میں ’’با‘‘ مضموم‘ جیم ساکن‘ دال اول مضموم اور دال ثانی ساکن ہے۔ اور جحدر میں ’’جیم‘‘ پر فتحہ‘ ’’حا‘‘ ساکن اور ’’دال‘‘ پر فتحہ ہے۔ یہ سراۃ کے باشندے تھے جو مکہ و مدینہ کے مابین ایک جگہ کا نام ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حمیر قبیلے میں سے تھے۔ زندگی بھر حضر و سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے اور ہر طرح کی خدمت بجا لاتے رہے۔ ان کو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید کر آزادی سے ہمکنار کیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد شام میں رہائش پذیر ہوگئے۔ شام سے پھر حمص کی طرف نقل مکانی کر گئے اور وہیں ۵۴ ہجری میں وفات پائی۔