كِتَابُ الصِّيَامِ بَابُ الِاعْتِكَافِ وَقِيَامِ رَمَضَانَ ضعيف وَعَنْهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا، وَلَا يَشْهَدَ جِنَازَةً، وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً، وَلَا يُبَاشِرَهَا، وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ، إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ لَهُ مِنْهُ، وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ، وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَلَا بَأْسَ بِرِجَالِهِ، إِلَّا أَنَّ الرَّاجِحَ وَقْفُ آخِرِهِ.
کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
باب: اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ کسی مریض کی بیمار پرسی کرے نہ جنازے میں شرکت کرے‘ عورت کو ہاتھ لگائے نہ اس سے مباشرت کرے اور انتہائی ضروری کام کے بغیر مسجد میں سے نہ نکلے‘ نیز روزے کے بغیر اعتکاف نہیں ہے اور جامع مسجد کے علاوہ کہیں اعتکاف نہیں۔ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور اس کے راویوں میں کوئی خلل نہیں لیکن راجح یہ ہے کہ اس کے آخری الفاظ موقوف ہیں۔)
تشریح :
1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے متابعات کی بنا پر حسن قرار دیا ہے اور اس پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل:رقم:۹۶۶‘ وصحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني‘ رقم:۲۱۳۵) اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ 2.اعتکاف بہرنوع مسجد میں ہونا چاہیے۔ جامع مسجد سے مراد امام احمد اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ اس میں نماز باجماعت ہوتی ہو۔ جمہور کا خیال ہے کہ جس پر جمعہ فرض نہیں وہ ہر اس مسجد میں اعتکاف کر سکتا ہے جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو لیکن جس پر جمعہ فرض ہے اس کے لیے اس مسجد میں اعتکاف کرنا چاہیے جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔ 3.علماء کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے یا نہیں۔ جو علماء مذکورہ روایت کے الفاظ [لاَ اِعْتِکَافَ…] کو مدرج اور موقوف سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں ہے‘ البتہ جو علماء اسے مرفوعاً حسن قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک روزہ شرط ہے اور یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الصوم، باب المعتكف يعود المريض، حديث:2473. *الزهري مدلس وعنعن.
1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے متابعات کی بنا پر حسن قرار دیا ہے اور اس پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل:رقم:۹۶۶‘ وصحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني‘ رقم:۲۱۳۵) اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ 2.اعتکاف بہرنوع مسجد میں ہونا چاہیے۔ جامع مسجد سے مراد امام احمد اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ اس میں نماز باجماعت ہوتی ہو۔ جمہور کا خیال ہے کہ جس پر جمعہ فرض نہیں وہ ہر اس مسجد میں اعتکاف کر سکتا ہے جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو لیکن جس پر جمعہ فرض ہے اس کے لیے اس مسجد میں اعتکاف کرنا چاہیے جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔ 3.علماء کا اس میں بھی اختلاف ہے کہ اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے یا نہیں۔ جو علماء مذکورہ روایت کے الفاظ [لاَ اِعْتِکَافَ…] کو مدرج اور موقوف سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں ہے‘ البتہ جو علماء اسے مرفوعاً حسن قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک روزہ شرط ہے اور یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔