كِتَابُ الصِّيَامِ بَابُ صَوْمُ التَّطَوُّعِ وَمَا نُهِيَ عَنْ صَوْمِهِ حسن وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ أَكْثَرَ مَا يَصُومُ مِنَ الْأَيَّامِ يَوْمُ السَّبْتِ، وَيَوْمُ الْأَحَدِ، وَكَانَ يَقُولُ: ((إِنَّهُمَا يَوْمَا عِيدٍ لِلْمُشْرِكِينَ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَهُمْ)). أَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ، وَهَذَا لَفْظُهُ.
کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
باب: نفلی روزوں اوران دنوں کا بیان جن میں روزہ رکھنامنع کیا گیا ہے
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے اور اتوار کو اکثر روزہ رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ’’یہ دونوں دن مشرکوں کی عید کے دن ہیں اور میں ان کی مخالفت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ (اسے امام نسائی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے اور یہ الفاظ ابن خزیمہ کے ہیں۔)
تشریح :
پہلی حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہفتے کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا لیکن وہ روایت مضطرب اور منسوخ ہے جیسا کہ مصنف علام نے ذکر کیا ہے اور اس کی ناسخ یہی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے اور اتوار کو عموماً روزہ رکھتے تھے‘ محض اس لیے کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کی جائے کیونکہ یہود ہفتے کے دن کی اور نصاریٰ اتوار کے دن کی تعظیم کرتے تھے۔ آپ نے ان کے برعکس ان دنوں کا روزہ رکھ کر واضح کر دیا کہ یہ عید اور تعظیم کے دن نہیں ہیں کیونکہ عید کے دن روزہ رکھنا منع ہوتا ہے۔
تخریج :
أخرجه النسائي في الكبرٰى، حديث:2775، وابن خزيمة:3 /318، حديث:2167، وابن حبان(الموارد):941، والحاكم:1 /436.
پہلی حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہفتے کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا لیکن وہ روایت مضطرب اور منسوخ ہے جیسا کہ مصنف علام نے ذکر کیا ہے اور اس کی ناسخ یہی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے اور اتوار کو عموماً روزہ رکھتے تھے‘ محض اس لیے کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کی جائے کیونکہ یہود ہفتے کے دن کی اور نصاریٰ اتوار کے دن کی تعظیم کرتے تھے۔ آپ نے ان کے برعکس ان دنوں کا روزہ رکھ کر واضح کر دیا کہ یہ عید اور تعظیم کے دن نہیں ہیں کیونکہ عید کے دن روزہ رکھنا منع ہوتا ہے۔