كِتَابُ الصِّيَامِ بَابُ صَوْمُ التَّطَوُّعِ وَمَا نُهِيَ عَنْ صَوْمِهِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا)). رَوَاهُ الْخَمْسَةُ، وَاسْتَنْكَرَهُ أَحْمَدُ.
کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
باب: نفلی روزوں اوران دنوں کا بیان جن میں روزہ رکھنامنع کیا گیا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب شعبان آدھا گزر جائے تو روزہ نہ رکھو۔‘‘ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے منکر کہا ہے۔)
تشریح :
1. یہ ممانعت اس لیے ہے کہ شعبان کے آخری دنوں میں روزے رکھ کر ضعف و کمزوری لاحق نہ ہو جائے اور رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے قوت بحال رہے۔ یہ نہی تنزیہی ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے آخری دنوں میں بھی روزہ رکھ لیتے تھے۔ 2.امام احمد رحمہ اللہ نے جو اس حدیث کو منکر کہا ہے تو اس بنا پر نہیں کہ اس کا کوئی راوی ضعیف ہے بلکہ اس وجہ سے کہ اسے بیان کرنے میں علاء بن عبدالرحمن منفرد ہیں اور امام احمد تفرد ثقہ پر بھی منکر کا لفظ بول دیتے ہیں۔ 3. اس ممانعت سے وہ روزے مستثنیٰ ہیں جو عادتاً رکھے جاتے ہیں‘ مثلاً: جو شخص ہر سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے لیے نصف شعبان کے بعد بھی ان دنوں میں روزہ رکھنا جائز ہے۔ مزید تفصیل کے لیے فتح الباری وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الصوم، باب في كراهية ذلك، حديث:2237، والترمذي، الصوم، حديث:738، وأحمد:2 /442، وابن ماجه، الصيام، حديث:1651، والنسائي في الكبرٰى:2 /172، حديث:2911.
1. یہ ممانعت اس لیے ہے کہ شعبان کے آخری دنوں میں روزے رکھ کر ضعف و کمزوری لاحق نہ ہو جائے اور رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے قوت بحال رہے۔ یہ نہی تنزیہی ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے آخری دنوں میں بھی روزہ رکھ لیتے تھے۔ 2.امام احمد رحمہ اللہ نے جو اس حدیث کو منکر کہا ہے تو اس بنا پر نہیں کہ اس کا کوئی راوی ضعیف ہے بلکہ اس وجہ سے کہ اسے بیان کرنے میں علاء بن عبدالرحمن منفرد ہیں اور امام احمد تفرد ثقہ پر بھی منکر کا لفظ بول دیتے ہیں۔ 3. اس ممانعت سے وہ روزے مستثنیٰ ہیں جو عادتاً رکھے جاتے ہیں‘ مثلاً: جو شخص ہر سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے لیے نصف شعبان کے بعد بھی ان دنوں میں روزہ رکھنا جائز ہے۔ مزید تفصیل کے لیے فتح الباری وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔