كِتَابُ الصِّيَامِ بَابُ صَوْمُ التَّطَوُّعِ وَمَا نُهِيَ عَنْ صَوْمِهِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((لَا تَخْتَصُّوا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِيَامٍ مِنْ بَيْنِ اللَّيَالِي، وَلَا تَخْتَصُّوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي صَوْمٍ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
باب: نفلی روزوں اوران دنوں کا بیان جن میں روزہ رکھنامنع کیا گیا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دوسری راتوں میں سے جمعے کی رات کو قیام کرنے کے لیے مخصوص نہ کرو اور نہ دوسرے دنوں ہی میں سے جمعہ کے دن کو روزے کے لیے مختص کرو‘ سوائے اس کے کہ جمعہ ایسے دن میں آجائے کہ جس دن کا روزہ تم میں سے کوئی شخص رکھتا چلاآرہا ہو۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. [لَا تَخُصُّوا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ] یعنی صرف جمعے کے دن کو روزے کے لیے مختص نہ کرو‘ اس لیے کہ جمعے کا دن عید کا دن ہے اور عید کے دن روزہ نہیں ہوتا۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ ممانعت تحریمی ہے مگر جمہور نے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ ترمذی میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حسن سند والی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم جمعے کا روزہ چھوڑتے تھے۔ (جامع الترمذي‘ الصوم‘ باب ماجاء في صوم یوم الجمعۃ‘ حدیث:۷۴۲) مگر اس میں احتمال ہے کہ شاید اس کے ساتھ آپ ایک دن پہلے یا بعد میں بھی روزہ رکھتے ہوں گے۔ 2.یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا ریب جمعے کو عید کا دن فرمایا ہے مگر عید اور جمعے میں اتنا فرق ضرور ہے کہ عید کے دن روزہ رکھنا بالکل ناجائز ہے‘ کسی طرح بھی جائز نہیں حتی کہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد والے دن میں روزہ رکھنے سے بھی جائز نہیں ہوتا کیونکہ آپ نے عید کے دن روزہ رکھنے سے مطلقاً منع فرمایا ہے جبکہ جمعہ میں یہ صورت بالاتفاق جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی اجازت دی ہے جیسا کہ اس کے بعد والی حدیث میں آرہا ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الصيام، باب كراهة صيام يوم الجمعة منفردًا، حديث:1144.
1. [لَا تَخُصُّوا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ] یعنی صرف جمعے کے دن کو روزے کے لیے مختص نہ کرو‘ اس لیے کہ جمعے کا دن عید کا دن ہے اور عید کے دن روزہ نہیں ہوتا۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ ممانعت تحریمی ہے مگر جمہور نے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ ترمذی میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حسن سند والی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم جمعے کا روزہ چھوڑتے تھے۔ (جامع الترمذي‘ الصوم‘ باب ماجاء في صوم یوم الجمعۃ‘ حدیث:۷۴۲) مگر اس میں احتمال ہے کہ شاید اس کے ساتھ آپ ایک دن پہلے یا بعد میں بھی روزہ رکھتے ہوں گے۔ 2.یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا ریب جمعے کو عید کا دن فرمایا ہے مگر عید اور جمعے میں اتنا فرق ضرور ہے کہ عید کے دن روزہ رکھنا بالکل ناجائز ہے‘ کسی طرح بھی جائز نہیں حتی کہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد والے دن میں روزہ رکھنے سے بھی جائز نہیں ہوتا کیونکہ آپ نے عید کے دن روزہ رکھنے سے مطلقاً منع فرمایا ہے جبکہ جمعہ میں یہ صورت بالاتفاق جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی اجازت دی ہے جیسا کہ اس کے بعد والی حدیث میں آرہا ہے۔