کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ حسن وَعَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ - رضي الله عنه - قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفْرًا أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيَهِنَّ، إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ، وَبَوْلٍ، وَنَوْمٍ. أَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ، وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَصَحَّحَاهُ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: موزوں پر مسح کرنے کے احکام ومسائل
حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم مسافر ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے کہ ہم تین دن اور تین راتیں موزے نہ اتاریں‘ الاّ یہ کہ حالت جنابت لاحق ہو جائے‘ البتہ بیت الخلا جانے کی صورت میں‘ نیز پیشاب اور نیند کی وجہ سے بھی اتارنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ (اسے نسائی اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور الفاظ ترمذی کے ہیں، نیز اسے ابن خزیمہ نے بھی روایت کیا ہے اور ترمذی اور ابن خزیمہ دونوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. موزوں پر مسح بلااختلاف جائز ہے۔ 2. موزوں پر مسح کی روایات بیان کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعداد اسّی (۸۰) کے لگ بھگ ہے جن میں عشرۂ مبشرہ بھی شامل ہیں۔ 3. علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے۔ 4. امام کرخی کی رائے ہے کہ مسح خفین کی احادیث تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں۔ انکار کرنے والے کے بارے میں ان کا قول ہے کہ مجھے اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔ 5.مقیم اور مسافر کی مدت مختلف ہے۔ مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن رات شرعی حد ہے۔ مدت کا آغاز وضو ٹوٹنے کے بعد وضو کرتے وقت پہلے مسح سے شروع ہوگا‘ موزے پہننے کے وقت سے نہیں‘ مثلاً: ایک شخص نماز ظہر کے وقت وضو کر کے موزے پہنتا ہے اور اس کا وضو شام کو جا کر ٹوٹتا ہے تو اس کے لیے آغاز مدت وضو کرتے وقت پہلے مسح سے ہوگا نہ کہ وضو ٹوٹنے کے وقت سے۔ 6. مسح کا طریقہ اس طرح ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پانی سے تر کر کے ان کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے آغاز تک کھینچ لیا جائے۔7. حدث لاحق ہونے (بے وضو ہونے) کی صورت میں اگر موزہ اتار لیا جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے اور اختتام مدت کے بعد بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے۔ اور بعینہٖ یہ سارے احکام جرابوں پر مسح کے بھی ہیں۔ اور ہر قسم کی جراب‘ خواہ موٹی ہو یا باریک‘ اس پر مسح جائز ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ ] صفوان ’’صاد‘‘ کے فتحہ اور ’’فا‘‘ کے سکون کے ساتھ ہے۔ عَسَّال ’’عین‘‘ کے فتحہ اور ’’سین‘‘ کی تشدیدکے ساتھ ہے۔ صفوان بن عسال مرادی جملی‘ مشہور و معروف صحابی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑے جانے والے ۱۲ غزوات میں شریک ہوئے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کی۔ کہا جاتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے روایت کی ہے۔
تخریج :
أخرجه الترمذي، الطهارة، باب المسح على الخفين للمسافر والمقيم، حديث:96، والنسائي، الطهارة، حديث: 127، وابن خزيمة:1 / 99، حديث:196.
1. موزوں پر مسح بلااختلاف جائز ہے۔ 2. موزوں پر مسح کی روایات بیان کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعداد اسّی (۸۰) کے لگ بھگ ہے جن میں عشرۂ مبشرہ بھی شامل ہیں۔ 3. علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس کے ثبوت پر اجماع نقل کیا ہے۔ 4. امام کرخی کی رائے ہے کہ مسح خفین کی احادیث تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں۔ انکار کرنے والے کے بارے میں ان کا قول ہے کہ مجھے اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔ 5.مقیم اور مسافر کی مدت مختلف ہے۔ مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن رات شرعی حد ہے۔ مدت کا آغاز وضو ٹوٹنے کے بعد وضو کرتے وقت پہلے مسح سے شروع ہوگا‘ موزے پہننے کے وقت سے نہیں‘ مثلاً: ایک شخص نماز ظہر کے وقت وضو کر کے موزے پہنتا ہے اور اس کا وضو شام کو جا کر ٹوٹتا ہے تو اس کے لیے آغاز مدت وضو کرتے وقت پہلے مسح سے ہوگا نہ کہ وضو ٹوٹنے کے وقت سے۔ 6. مسح کا طریقہ اس طرح ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کو پانی سے تر کر کے ان کے پوروں کو پاؤں کی انگلیوں سے پنڈلی کے آغاز تک کھینچ لیا جائے۔7. حدث لاحق ہونے (بے وضو ہونے) کی صورت میں اگر موزہ اتار لیا جائے تو مسح ٹوٹ جاتا ہے اور اختتام مدت کے بعد بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے۔ اور بعینہٖ یہ سارے احکام جرابوں پر مسح کے بھی ہیں۔ اور ہر قسم کی جراب‘ خواہ موٹی ہو یا باریک‘ اس پر مسح جائز ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ ] صفوان ’’صاد‘‘ کے فتحہ اور ’’فا‘‘ کے سکون کے ساتھ ہے۔ عَسَّال ’’عین‘‘ کے فتحہ اور ’’سین‘‘ کی تشدیدکے ساتھ ہے۔ صفوان بن عسال مرادی جملی‘ مشہور و معروف صحابی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں لڑے جانے والے ۱۲ غزوات میں شریک ہوئے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کی۔ کہا جاتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے روایت کی ہے۔