كِتَابُ الصِّيَامِ بًابُ الصِّيَامِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا; أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
باب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر روزہ لازم ہو تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزہ رکھے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
تشریح :
عموماً محدثین نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ حج کی طرح روزے میں بھی نیابت درست ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے روزہ نہیں بلکہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا فتویٰ بھی یہی ہے۔ مگر اس صریح اور صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے میں بھی نیابت جائز ہے اور یہی بات راجح ہے‘ نیز یہ بھی لازم نہیں کہ ولی ہی میت کی طرف سے روزہ رکھے‘ کوئی دوسرا آدمی بھی روزہ رکھ سکتا ہے جیسے کہ حج میں ہے۔ حدیث میں ولی کا ذکر اغلبیت کی بنا پر ہے۔ (سبل السلام)
تخریج :
أخرجه البخاري، الصوم، باب من مات وعليه صوم، حديث:1952، ومسلم، الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، حديث:1147.
عموماً محدثین نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ حج کی طرح روزے میں بھی نیابت درست ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے روزہ نہیں بلکہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا فتویٰ بھی یہی ہے۔ مگر اس صریح اور صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے میں بھی نیابت جائز ہے اور یہی بات راجح ہے‘ نیز یہ بھی لازم نہیں کہ ولی ہی میت کی طرف سے روزہ رکھے‘ کوئی دوسرا آدمی بھی روزہ رکھ سکتا ہے جیسے کہ حج میں ہے۔ حدیث میں ولی کا ذکر اغلبیت کی بنا پر ہے۔ (سبل السلام)