كِتَابُ الصِّيَامِ بًابُ الصِّيَامِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: هَلَكْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: ((وَمَا أَهْلَكَكَ؟)) قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: ((هَلْ تَجِدُ مَا تَعْتِقُ رَقَبَةً؟)) قَالَ: لَا. قَالَ: ((فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ?)) قَالَ: لَا. قَالَ: ((فَهَلْ تَجِدُ مَا تُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟)) قَالَ: لَا، ثُمَّ جَلَسَ، فَأُتِي النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ. فَقَالَ: ((تَصَدَّقْ بِهَذَا)) ، فَقَالَ: أَعَلَى أَفْقَرَ مِنَّا? فَمَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنَّا، فَضَحِكَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ، ثُمَّ قَالَ: ((اذْهَبْ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ)). رَوَاهُ السَّبْعَةُ، وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
باب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں ہلاک ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: ’’کس چیز نے تجھے ہلاک کیا؟‘‘ اس نے کہا کہ میں رمضان میں (روزے کی حالت میں) اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تجھ میں اتنی استطاعت ہے کہ تو ایک گردن کو آزاد کر دے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ دو ماہ کے متواتر روزے رکھے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تیرے پاس اتنا مال ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ پھر وہ بیٹھ گیا۔ (اتنی دیر میں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا۔ اس میں کھجوریں تھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’انھیں صدقہ کر دے۔‘‘ اس نے کہا: کیا اپنے سے زیادہ محتاج پر (خیرات کروں؟) کیونکہ دو سیاہ پتھروں والے میدانوں کے مابین (مدینے میں) کوئی گھر والا مجھ سے زیادہ محتاج نہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’جاؤ اسے اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔‘‘ (اسے ساتوں نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے امام اوزاعی رحمہ اللہ اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ تنگ دست پر کفارہ نہیں۔ مگر امام مالک‘ امام شافعی‘ امام ابوحنیفہ‘ امام ثوری اور امام ابوثور رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے یہ استدلال درست نہیں‘ کفارہ جب میسر ہو بہرنوع ادا کیا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کفارے کا ذکر کیا۔ تنگ دستی کی بنا پر کھجوریں اسے بطور صدقہ کے دیں‘ کفارہ کے طور پر نہیں۔ اس حدیث میں قطعاً ذکر نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کفارے کو ساقط قرار دیا ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں جو کفارے کے سقوط کا ذکر ہے وہ سخت ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔ 2. اس حدیث میں گو روزے کی قضا ادا کرنے کا حکم نہیں مگر دوسری احادیث میں قضا کا حکم موجود ہے جیسا کہ سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے : [وَصُمْ یَوْمًا مَکَانَہُ] ’’اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لینا۔‘‘ شیخ البانی رحمہ اللہ اس جملے کی بابت لکھتے ہیں کہ اس روایت کے تمام طرق سامنے رکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۴ /۸۸- ۹۳‘ رقم:۹۳۹) اس بنا پر ائمۂ اربعہ اور جمہور علماء ایسی صورت میں مرد و زن دونوں کے لیے روزہ رکھنے کے قائل ہیں۔ اور احتیاط اور تقویٰ اسی میں ہے کہ جو روزہ توڑا گیا ہے اس کے بدلے میں روزہ رکھ کر مہینے کی تعداد پوری کی جائے‘ تاہم اگر عورت روزہ دار نہ ہو تو اس پر قضا نہیں۔ 3.حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے کہ بعض علماء نے اس حدیث پر دو جلدوں میں بحث کی ہے اور اس سے ایک ہزار فوائد و مسائل کا استنباط کیاہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الصوم، باب إذا جامع في رمضان...، حديث:1936، ومسلم، الصيام، باب تغليظ تحريم الجماع في نهار رمضان على الصائم، حديث:1111، وأبوداود، الصيام، حديث:2390-2393، والترمذي، الصوم، حديث:724، وابن ماجه، الصيام، حديث:1671، والنسائي في الكبرٰ:2 /212، حديث:3117، وأحمد:2 /208، 241، 273، 281، 516.
1. اس حدیث سے امام اوزاعی رحمہ اللہ اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ تنگ دست پر کفارہ نہیں۔ مگر امام مالک‘ امام شافعی‘ امام ابوحنیفہ‘ امام ثوری اور امام ابوثور رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے یہ استدلال درست نہیں‘ کفارہ جب میسر ہو بہرنوع ادا کیا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کفارے کا ذکر کیا۔ تنگ دستی کی بنا پر کھجوریں اسے بطور صدقہ کے دیں‘ کفارہ کے طور پر نہیں۔ اس حدیث میں قطعاً ذکر نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کفارے کو ساقط قرار دیا ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت میں جو کفارے کے سقوط کا ذکر ہے وہ سخت ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔ 2. اس حدیث میں گو روزے کی قضا ادا کرنے کا حکم نہیں مگر دوسری احادیث میں قضا کا حکم موجود ہے جیسا کہ سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے : [وَصُمْ یَوْمًا مَکَانَہُ] ’’اس کی جگہ ایک روزہ رکھ لینا۔‘‘ شیخ البانی رحمہ اللہ اس جملے کی بابت لکھتے ہیں کہ اس روایت کے تمام طرق سامنے رکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۴ /۸۸- ۹۳‘ رقم:۹۳۹) اس بنا پر ائمۂ اربعہ اور جمہور علماء ایسی صورت میں مرد و زن دونوں کے لیے روزہ رکھنے کے قائل ہیں۔ اور احتیاط اور تقویٰ اسی میں ہے کہ جو روزہ توڑا گیا ہے اس کے بدلے میں روزہ رکھ کر مہینے کی تعداد پوری کی جائے‘ تاہم اگر عورت روزہ دار نہ ہو تو اس پر قضا نہیں۔ 3.حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے کہ بعض علماء نے اس حدیث پر دو جلدوں میں بحث کی ہے اور اس سے ایک ہزار فوائد و مسائل کا استنباط کیاہے۔