بلوغ المرام - حدیث 548

كِتَابُ الصِّيَامِ بًابُ الصِّيَامِ حسن وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - قَالَ: رُخِّصَ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ أَنْ يُفْطِرَ، وَيُطْعِمَ عَنْ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا، وَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ. رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ، وَالْحَاكِمُ، وَصَحَّحَاهُ.

ترجمہ - حدیث 548

کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل باب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بڑی عمر والے بوڑھے کو رخصت دی گئی ہے کہ وہ افطار کرے (روزے نہ رکھے)اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے اور اس پر قضا نہیں ہے۔ (اسے دارقطنی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور دونوں نے صحیح کہا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بہت بوڑھا شخص‘ جس کی طاقت بحال ہونے کی امید نہ ہو‘ اور اسی طرح علاج سے مایوس مریض یومیہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں‘ نیز یہی حکم حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کا ہے کہ اگر ان کے روزہ رکھنے سے ان کے اپنے بارے میں یا ان کے رحم میں زیرپرورش یا دودھ پیتے بچے کی بابت نقصان کا اندیشہ ہو تو ان کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے۔ 2.زیادہ بوڑھے مرد و عورت کو ان کی اپنی ذاتی کمزوری کی بنا پر رخصت دی گئی ہے۔ اور حاملہ اور مرضعہ کو رخصت بچوں کے نقصان کے اندیشے کے پیش نظر دی گئی ہے۔ 3. حاملہ اور مرضعہ بعد میں قضا دیں یا نہ دیں اس کی بابت اختلاف ہے۔ بعض علماء کا موقف یہ ہے کہ وہ مریض کے حکم میں ہیں‘ وہ روزہ چھوڑ دیں‘ انھیں فدیہ دینے کی ضرورت نہیں‘ وہ بعد میں قضا دیں‘ نیز سعودی علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ بعض دوسرے علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ان کا حکم مایوس مریض کا ہے کہ وہ صرف فدیہ دیں گی‘ قضا ادا نہیں کریں گی۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: ( صفۃ صوم النبي‘ وفتاویٰ اسلامیہ‘ اردود‘ طبع دارالسلام: ۲ /۲۰۳- ۲۰۵)
تخریج : أخرجه الدارقطني:2 /205، وقال: "هذا إسناد صحيح"، والحاكم:1 /440 وصححه على شرط البخاري، ووافقه الذهبي. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بہت بوڑھا شخص‘ جس کی طاقت بحال ہونے کی امید نہ ہو‘ اور اسی طرح علاج سے مایوس مریض یومیہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں‘ نیز یہی حکم حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کا ہے کہ اگر ان کے روزہ رکھنے سے ان کے اپنے بارے میں یا ان کے رحم میں زیرپرورش یا دودھ پیتے بچے کی بابت نقصان کا اندیشہ ہو تو ان کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے۔ 2.زیادہ بوڑھے مرد و عورت کو ان کی اپنی ذاتی کمزوری کی بنا پر رخصت دی گئی ہے۔ اور حاملہ اور مرضعہ کو رخصت بچوں کے نقصان کے اندیشے کے پیش نظر دی گئی ہے۔ 3. حاملہ اور مرضعہ بعد میں قضا دیں یا نہ دیں اس کی بابت اختلاف ہے۔ بعض علماء کا موقف یہ ہے کہ وہ مریض کے حکم میں ہیں‘ وہ روزہ چھوڑ دیں‘ انھیں فدیہ دینے کی ضرورت نہیں‘ وہ بعد میں قضا دیں‘ نیز سعودی علماء کی بھی یہی رائے ہے۔ بعض دوسرے علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ان کا حکم مایوس مریض کا ہے کہ وہ صرف فدیہ دیں گی‘ قضا ادا نہیں کریں گی۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: ( صفۃ صوم النبي‘ وفتاویٰ اسلامیہ‘ اردود‘ طبع دارالسلام: ۲ /۲۰۳- ۲۰۵)