بلوغ المرام - حدیث 545

كِتَابُ الصِّيَامِ بًابُ الصِّيَامِ ضعيف وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ فَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ، وَمَنْ اسْتَقَاءَ فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ)). رَوَاهُ الْخَمْسَةُ. وَأَعَلَّهُ أَحْمَدُ. وَقَوَّاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ.

ترجمہ - حدیث 545

کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل باب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جسے خود بخود قے آجائے (اس پر قے غالب آجائے) تو اس پر (روزے کی) قضا نہیں اور جو جان بوجھ کر قے کرے اس پر قضا ہے۔‘‘ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ امام احمد نے اسے معلول کہا ہے اور دارقطنی نے قوی کہا ہے۔)
تشریح : 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے سنن ابی داود کی تحقیق میں لکھا ہے کہ یہ روایت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مصنف ابن ابی شیبہ (۳ /۳۸‘ حدیث : ۹۱۸۸) میں صحیح سند سے مروی ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف اور معناً صحیح ہے۔ دیکھیے: (سنن ابو داود (اردو) طبع دارالسلام‘ حدیث : ۲۳۸۰ کی تحقیق و تخریج) مزید سندی اور تحقیقی بحث کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۶ /۲۸۴‘ والإرواء‘ رقم:۹۲۳) 2.اگر روزے دار کو ازخود قے آ جائے تو اس پر قضا نہیں اور اگر وہ جان بوجھ کر قے کرے تو اس پر قضا ہے۔ امام شافعی‘ امام سفیان ثوری‘ امام احمد اور امام اسحاق رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ دیکھیے: (جامع الترمذي‘ بعد حدیث:۷۱۶)
تخریج : أخرجه أبوداود، الصوم، باب الصائم يستقيء عمدًا، حديث:2380، والترمذي، الصوم، حديث:720، وابن ماجه، الصيام، حديث:1676، وأحمد:2 /498، والنسائي في الكبرٰى:2 /215، حديث:3130، والدارقطني: 2 /184، وقال: "رواته ثقات كلهم" .* هشمام بن حسان مدلس وعنعن، وأخرج البيهقي:4 /219 بإسناد صحيح عن ابن عمر قال: "من ذرعه القيء فلا قضاء عليه ومن استقاء فعليه القضاء". 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے سنن ابی داود کی تحقیق میں لکھا ہے کہ یہ روایت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مصنف ابن ابی شیبہ (۳ /۳۸‘ حدیث : ۹۱۸۸) میں صحیح سند سے مروی ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف اور معناً صحیح ہے۔ دیکھیے: (سنن ابو داود (اردو) طبع دارالسلام‘ حدیث : ۲۳۸۰ کی تحقیق و تخریج) مزید سندی اور تحقیقی بحث کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۶ /۲۸۴‘ والإرواء‘ رقم:۹۲۳) 2.اگر روزے دار کو ازخود قے آ جائے تو اس پر قضا نہیں اور اگر وہ جان بوجھ کر قے کرے تو اس پر قضا ہے۔ امام شافعی‘ امام سفیان ثوری‘ امام احمد اور امام اسحاق رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ دیکھیے: (جامع الترمذي‘ بعد حدیث:۷۱۶)