بلوغ المرام - حدیث 537

كِتَابُ الصِّيَامِ بًابُ الصِّيَامِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَنِ الْوِصَالِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ: فَإِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُوَاصِلُ? قَالَ: ((وَأَيُّكُمْ مِثْلِي? إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي)). فَلَمَّا أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا عَنِ الْوِصَالِ وَاصَلَ بِهِمْ يَوْمًا، ثُمَّ يَوْمًا، ثُمَّ رَأَوُا الْهِلَالَ، فَقَالَ: ((لَوْ تَأَخَّرَ الْهِلَالُ لَزِدْتُكُمْ))، كَالْمُنَكِّلِ لَهُمْ حِينَ أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 537

کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل باب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال (کھائے پیے بغیر مسلسل دو یا تین روزے رکھنے) سے منع فرمایا۔ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول ! آپ خود تو وصال فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے میرے جیسا کون ہے؟ میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘ چنانچہ جب لوگ وصال سے باز نہ آئے تو آپ نے انھیں ایک دن‘ پھر دوسرے دن وصال کرایا۔ پھر انھوں نے چاند دیکھ لیا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر آج چاند نظر نہ آتا تو میں تمھیں زیادہ دن وصال کراتا۔‘‘ گویا آپ لوگوں کو اس سے باز نہ رہنے کی وجہ سے سزا دے رہے تھے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روزے میں وصال مکروہ ہے۔ 2. اللہ تعالیٰ انسان کو مشقت میں مبتلا نہیں کرتا۔ مسلسل کچھ کھائے پیے بغیر روزہ رکھنا انسانی اعضاء و قوتوں کو کمزور کر دینے کا بھی موجب ہے۔ 3. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی غذا کی قوت مل جاتی تھی‘ اس لیے آپ وصال فرما لیتے۔ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نیکی کے جذبے سے اور آپ کے عمل کو دیکھ کر وصال کرنا شروع کیا تو آپ نے انھیں اس سے منع فرمایا مگر جب وہ باز نہ آئے تو آپ نے سبق سکھانے کے لیے مسلسل روزے رکھنا شروع کیے تو اتنے میں چاند نظر آ گیا۔ آپ نے زجر و توبیخ کے طور پر فرمایا: کرو وصال۔ کہاں تک کرو گے۔ اگر چاند نظر نہ آتا تو میں صوم وصال کو مزید طول دے دیتا تاکہ تمھیں سبق ملتا۔ 4.بخاری میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’وصال نہ کرو۔ ہاں‘ اگر تم میں سے کوئی وصال کرنا ہی چاہے تو سحر تک وصال کرے۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الصوم‘ باب الوصال إلی السحر‘ حدیث:۱۹۶۷) جس سے امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ صبح تک وصال جائز ہے۔ 5. سحری کا کھانا شعائر اسلام میں سے ہے‘ اس لیے سحری کو کھانا چاہیے اور رات دن کا وصال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الصوم، باب التنكيل لمن أكثر الوصال، حديث:1965، ومسلم، الصيام، باب النهي عن الوصال في الصوم، حديث:1103. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روزے میں وصال مکروہ ہے۔ 2. اللہ تعالیٰ انسان کو مشقت میں مبتلا نہیں کرتا۔ مسلسل کچھ کھائے پیے بغیر روزہ رکھنا انسانی اعضاء و قوتوں کو کمزور کر دینے کا بھی موجب ہے۔ 3. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی غذا کی قوت مل جاتی تھی‘ اس لیے آپ وصال فرما لیتے۔ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نیکی کے جذبے سے اور آپ کے عمل کو دیکھ کر وصال کرنا شروع کیا تو آپ نے انھیں اس سے منع فرمایا مگر جب وہ باز نہ آئے تو آپ نے سبق سکھانے کے لیے مسلسل روزے رکھنا شروع کیے تو اتنے میں چاند نظر آ گیا۔ آپ نے زجر و توبیخ کے طور پر فرمایا: کرو وصال۔ کہاں تک کرو گے۔ اگر چاند نظر نہ آتا تو میں صوم وصال کو مزید طول دے دیتا تاکہ تمھیں سبق ملتا۔ 4.بخاری میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’وصال نہ کرو۔ ہاں‘ اگر تم میں سے کوئی وصال کرنا ہی چاہے تو سحر تک وصال کرے۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الصوم‘ باب الوصال إلی السحر‘ حدیث:۱۹۶۷) جس سے امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ صبح تک وصال جائز ہے۔ 5. سحری کا کھانا شعائر اسلام میں سے ہے‘ اس لیے سحری کو کھانا چاہیے اور رات دن کا وصال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔