كِتَابُ الصِّيَامِ بًابُ الصِّيَامِ ضعيف وَعَنْ حَفْصَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((مَنْ لَمْ يُبَيِّتِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ)). رَوَاهُ الْخَمْسَةُ، وَمَالَ النَّسَائِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ إِلَى تَرْجِيحِ وَقْفِهِ، وَصَحَّحَهُ مَرْفُوعًا ابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ. وَلِلدَّارَقُطْنِيِّ: ((لَا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَفْرِضْهُ مِنَ اللَّيْلِ)).
کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
باب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے رات کو صبح صادق سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا کوئی روزہ نہیں۔‘‘ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور نسائی کا رجحان اس کے موقوف ہونے کی طرف ہے اور ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اس کا مرفوع ہونا صحیح قرار دیا ہے۔) اور دارقطنی کی روایت میں ہے: ’’جس نے رات کو اسے اپنے آپ پر واجب نہ کیا اس کا کوئی روزہ نہیں۔‘‘
تشریح :
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ علاوہ ازیں فاضل محقق نے سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں اس روایت کی بابت لکھا ہے کہ یہ مذکورہ روایت سنن نسائی میں بھی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے‘ وہ روایت موقوفاً صحیح ہے۔ دیکھیے: تحقیق و تخریج سنن ابن ماجہ‘ رقم : ۱۷۰۰) شیخ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل میں اس پر کافی بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل:۴ /۲۵‘۳۰‘ رقم: ۹۱۴) بنابریں فرضی روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کر لینا ضروری ہے۔ گویا غروب آفتاب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک نیت کی جا سکتی ہے۔ 2.نفلی روزے کی نیت دن میں بھی کی جا سکتی ہے۔ 3 نیت اس لیے ضروری اور لازمی ہے کہ روزہ ایک عمل ہے اور عمل کے لیے نیت ضروری ہے اور ہر دن کے روزے کے لیے الگ الگ نیت شرط ہے‘ البتہ روزے کی نیت کے جو الفاظ زبان سے کہے جاتے ہیں وہ بدعت ہیں کیونکہ نیت دل کا عمل ہے‘ زبان کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ یہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی سے ثابت ہیں۔ راوئ حدیث: [حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما ] پہلے یہ خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ ان کے ساتھ ہجرت کی۔ غزوۂ بدر کے بعد وہ وفات پاگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 3 ہجری میں انھیں اپنی زوجیت میں لے کر اپنے حرم میں داخل فرما لیا۔ ساٹھ سال کی عمر میں شعبان 45 ہجری میں فوت ہوئیں۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الصوم، باب النية في الصيام، حديث:2454، والترمذي، الصوم، حديث:730، والنسائي، الصيام، حديث:2333، وابن ماجه، الصيام، حديث:1700، وأحمد:6 /287، وابن خزيمة:3 /212، حديث:1933، وابن حبان: لم أجده، والدارقطني:2 /172، الزهري عنعن.
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ علاوہ ازیں فاضل محقق نے سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں اس روایت کی بابت لکھا ہے کہ یہ مذکورہ روایت سنن نسائی میں بھی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے‘ وہ روایت موقوفاً صحیح ہے۔ دیکھیے: تحقیق و تخریج سنن ابن ماجہ‘ رقم : ۱۷۰۰) شیخ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل میں اس پر کافی بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل:۴ /۲۵‘۳۰‘ رقم: ۹۱۴) بنابریں فرضی روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کر لینا ضروری ہے۔ گویا غروب آفتاب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک نیت کی جا سکتی ہے۔ 2.نفلی روزے کی نیت دن میں بھی کی جا سکتی ہے۔ 3 نیت اس لیے ضروری اور لازمی ہے کہ روزہ ایک عمل ہے اور عمل کے لیے نیت ضروری ہے اور ہر دن کے روزے کے لیے الگ الگ نیت شرط ہے‘ البتہ روزے کی نیت کے جو الفاظ زبان سے کہے جاتے ہیں وہ بدعت ہیں کیونکہ نیت دل کا عمل ہے‘ زبان کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ یہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی سے ثابت ہیں۔ راوئ حدیث: [حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما ] پہلے یہ خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ ان کے ساتھ ہجرت کی۔ غزوۂ بدر کے بعد وہ وفات پاگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 3 ہجری میں انھیں اپنی زوجیت میں لے کر اپنے حرم میں داخل فرما لیا۔ ساٹھ سال کی عمر میں شعبان 45 ہجری میں فوت ہوئیں۔