كِتَابُ الصِّيَامِ بًابُ الصِّيَامِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - قَالَ: تَرَاءَى النَّاسُ الْهِلَالَ، فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - أَنِّي رَأَيْتُهُ، فَصَامَ، وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِيَامِهِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ وَابْنُ حِبَّانَ.
کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
باب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی‘ اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے‘ چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور حاکم اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. ان احادیث سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ روزے کا آغاز اور اختتام دونوں چاند کے نظر آنے پر منحصر ہیں۔ چاند نظر آجائے تو روزہ رکھا جائے اور چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کیا جائے۔ 2. اگر انتیس شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو اس ماہ کے تیس دن پورے کیے جائیں اور اسی طرح اگر انتیس رمضان کو چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے پورے کیے جائیں۔ 3. اگر گرد و غبار اور ابر آلودگی کی وجہ سے ایک مقام پر چاند نظر نہ آئے مگر دوسری جگہ مطلع صاف ہونے کی بنا پر نظر آجائے تو روزہ سارے شہروں‘ قصبوں اور دیہاتوں میں رکھا جائے گا۔ اسی طرح عید بھی منائی جائے گی بشرطیکہ ان جگہوں کا مطلع ایک ہو۔ 4. اگر فاصلہ اس قدر ہو کہ مطلع ہی تبدیل ہو جائے تو پھر وہاں کی رؤیت قابل قبول نہ ہوگی جیسا کہ جمہور علمائے کرام نے کہا ہے۔ آج کل ہمارے ہاں بھی بعض لوگ روزے‘ عیدین اور دیگر عبادات جو چاند سے متعلق ہیں سعودی عرب کی رؤیت ہلال کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اسی رؤیت کو اپنے لیے قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ اس مسئلے کی بابت سعودی علماء اور مفتیان سے بھی استفسار کیا گیا‘ چنانچہ سعودی عرب کے مفتی ٔاعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں: ’’یہ مسئلہ سعودی عرب کے کبار علماء کی مجلس میں بھی پیش کیا گیا تو ان علماء کی رائے یہ تھی کہ اس مسئلے میں راجح بات یہ ہے کہ اس میں کافی گنجائش ہے۔ اپنے ملک کے علماء کی رائے کے مطابق عمل کر لیا جائے تو یہ جائز ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ ایک معتدل رائے ہے اور اس سے اہل علم کے مختلف اقوال و دلائل میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ آگے چل کر انھوں نے علماء کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ اہل علم پر واجب ہے کہ ماہ کے آغاز و اختتام کے موقع پر اس مسئلے کی طرف خصوصی توجہ مبذول کریں اور ایک بات پر متفق ہو جائیں جو ان کے اجتہاد کے مطابق حق کے زیادہ قریب ہو‘ پھر اسی کے مطابق عمل کریں اور لوگوں تک بھی اپنی بات پہنچا دیں۔ ان کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں اپنے علماء کی پیروی کریں اور اس مسئلے میں اختلاف نہ کریں کیونکہ اس سے لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے اور کثرت سے قیل و قال ہونے لگے گی۔‘‘ دیکھیے: (فتاویٰ اسلامیہ (اُردو)‘ ۲ /۱۵۸‘ ۱۵۹‘ مطبوعہ دارالسلام) 5. سعودی مفتیان کے فتاویٰ اور دیگر دلائل سے واضح ہو تا ہے کہ ہر ملک اپنی رؤیت اور اپنے علماء کے متفقہ فیصلے کے مطابق ہی روزے‘ عیدیں اور دیگر عبادات بجا لائے‘ ان شاء اللہ اسی میں خیر ہے۔ واللّٰہ أعلم بالصواب۔ 6. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے کے لیے ایک معتبر و مقبول آدمی کی شہادت کافی ہے۔ جمہور علماء کا یہی مذہب ہے مگر ہلال عید کے لیے دو شہادتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں‘ سب متفق ہیں۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الصوم، باب شهادة رجلين على رؤية هلال شوال، حديث:2342، وابن حبان(الإحسان):5 /188، حديث:3438، والحاكم:1 /423.
1. ان احادیث سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ روزے کا آغاز اور اختتام دونوں چاند کے نظر آنے پر منحصر ہیں۔ چاند نظر آجائے تو روزہ رکھا جائے اور چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کیا جائے۔ 2. اگر انتیس شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو اس ماہ کے تیس دن پورے کیے جائیں اور اسی طرح اگر انتیس رمضان کو چاند نظر نہ آئے تو تیس روزے پورے کیے جائیں۔ 3. اگر گرد و غبار اور ابر آلودگی کی وجہ سے ایک مقام پر چاند نظر نہ آئے مگر دوسری جگہ مطلع صاف ہونے کی بنا پر نظر آجائے تو روزہ سارے شہروں‘ قصبوں اور دیہاتوں میں رکھا جائے گا۔ اسی طرح عید بھی منائی جائے گی بشرطیکہ ان جگہوں کا مطلع ایک ہو۔ 4. اگر فاصلہ اس قدر ہو کہ مطلع ہی تبدیل ہو جائے تو پھر وہاں کی رؤیت قابل قبول نہ ہوگی جیسا کہ جمہور علمائے کرام نے کہا ہے۔ آج کل ہمارے ہاں بھی بعض لوگ روزے‘ عیدین اور دیگر عبادات جو چاند سے متعلق ہیں سعودی عرب کی رؤیت ہلال کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اسی رؤیت کو اپنے لیے قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ اس مسئلے کی بابت سعودی علماء اور مفتیان سے بھی استفسار کیا گیا‘ چنانچہ سعودی عرب کے مفتی ٔاعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں: ’’یہ مسئلہ سعودی عرب کے کبار علماء کی مجلس میں بھی پیش کیا گیا تو ان علماء کی رائے یہ تھی کہ اس مسئلے میں راجح بات یہ ہے کہ اس میں کافی گنجائش ہے۔ اپنے ملک کے علماء کی رائے کے مطابق عمل کر لیا جائے تو یہ جائز ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ ایک معتدل رائے ہے اور اس سے اہل علم کے مختلف اقوال و دلائل میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ آگے چل کر انھوں نے علماء کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ اہل علم پر واجب ہے کہ ماہ کے آغاز و اختتام کے موقع پر اس مسئلے کی طرف خصوصی توجہ مبذول کریں اور ایک بات پر متفق ہو جائیں جو ان کے اجتہاد کے مطابق حق کے زیادہ قریب ہو‘ پھر اسی کے مطابق عمل کریں اور لوگوں تک بھی اپنی بات پہنچا دیں۔ ان کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں اپنے علماء کی پیروی کریں اور اس مسئلے میں اختلاف نہ کریں کیونکہ اس سے لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے اور کثرت سے قیل و قال ہونے لگے گی۔‘‘ دیکھیے: (فتاویٰ اسلامیہ (اُردو)‘ ۲ /۱۵۸‘ ۱۵۹‘ مطبوعہ دارالسلام) 5. سعودی مفتیان کے فتاویٰ اور دیگر دلائل سے واضح ہو تا ہے کہ ہر ملک اپنی رؤیت اور اپنے علماء کے متفقہ فیصلے کے مطابق ہی روزے‘ عیدیں اور دیگر عبادات بجا لائے‘ ان شاء اللہ اسی میں خیر ہے۔ واللّٰہ أعلم بالصواب۔ 6. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے کے لیے ایک معتبر و مقبول آدمی کی شہادت کافی ہے۔ جمہور علماء کا یہی مذہب ہے مگر ہلال عید کے لیے دو شہادتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں‘ سب متفق ہیں۔