كِتَابُ الصِّيَامِ بًابُ الصِّيَامِ ضعيف وَعَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ - رضي الله عنه - قَالَ: مَنْ صَامَ الْيَوْمَ الَّذِي يُشَكُّ فِيهِ فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ - صلى الله عليه وسلم. وَذَكَرَهُ الْبُخَارِيُّ تَعْلِيقًا، وَوَصَلَهُ الْخَمْسَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ.
کتاب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
باب: روزوں سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس شخص نے شک کے دن کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔ (اسے بخاری نے تعلیقاً اور پانچوں نے موصولاً ذکر کیا ہے، نیز ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔)
تشریح :
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح کہا ہے۔ علاوہ ازیں امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسے تعلیقاً بیان کیا ہے‘ نیز دیگر دلائل سے بھی شک کے دن کا روزہ رکھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل:۴ /۱۲۵- ۱۲۷‘ رقم:۹۶۱) 2.شریعت اسلامیہ نے یہ واضح اصول مقرر فرما دیا ہے کہ روزہ رکھو تو چاند دیکھ کر رکھو اور اسی طرح روزوں کا اختتام بھی عید کا چاند دیکھ کر کرو۔ اب اگر شعبان کی انتیسویں شب چاند نظر نہ آیا تو صبح روزہ رکھنا‘ مشکوک ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے۔ علم فلکیات کے ماہرین کی آراء گو کسی حد تک درست ہو سکتی ہیں لیکن انھیں لازمی اور حتمی نہیں کہا جاسکتا۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الصوم، باب كراهية صوم يوم الشك، حديث:2334، والبخاري تعليقا، الصوم، حديث:1906، والترمذي، الصوم، حديث:686، وقال: حسن صحيح، والنسائي، الصيام، حديث:2190، وابن ماجه، الصيام، حديث:1645، وابن خزيمة:3 /205، حديث:1914، وابن حبان(الإحسان):5 /239، حديث:3577، أبوإسحاق مدلس وعنعن.
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح کہا ہے۔ علاوہ ازیں امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسے تعلیقاً بیان کیا ہے‘ نیز دیگر دلائل سے بھی شک کے دن کا روزہ رکھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل:۴ /۱۲۵- ۱۲۷‘ رقم:۹۶۱) 2.شریعت اسلامیہ نے یہ واضح اصول مقرر فرما دیا ہے کہ روزہ رکھو تو چاند دیکھ کر رکھو اور اسی طرح روزوں کا اختتام بھی عید کا چاند دیکھ کر کرو۔ اب اگر شعبان کی انتیسویں شب چاند نظر نہ آیا تو صبح روزہ رکھنا‘ مشکوک ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے۔ علم فلکیات کے ماہرین کی آراء گو کسی حد تک درست ہو سکتی ہیں لیکن انھیں لازمی اور حتمی نہیں کہا جاسکتا۔