كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ قَسْمِ الصَّدَقَاتِ صحيح وَعَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ; - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يُعْطِي عُمَرَ الْعَطَاءَ، فَيَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ مِنِّي، فَيَقُولُ: ((خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ، أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: صدقات کو تقسیم کرنے کا بیان
حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ اپنے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی چیز دیتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض کرتے: جو لوگ مجھ سے زیادہ غریب ہیں انھیں دے دیجیے۔ اس کے جواب میں آپ فرماتے: ’’اسے لے لو‘ پھر اسے اپنا مال بنا لو یا صدقہ و خیرات کر دو اور جو مال بغیر لالچ اور مانگنے کے تمھارے پاس آئے اسے لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ ملے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگاؤ۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عامل کو اپنے کام اور کارکردگی کی اجرت و معاوضہ لے لینا چاہیے کیونکہ اس حدیث میں عطاء سے یہی مراد ہے۔ علاوہ ازیں صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وصولی ٔزکاۃ کی اجرت کے بارے میں فرمائی تھی۔ (صحیح مسلم‘ الزکاۃ‘ باب جواز الأخذ بغیر سؤال ولا تطلع‘ حدیث:۱۰۴۵) یہ امر استحباب ہے‘ وجوب کے لیے نہیں‘ اور اس سے ہر قسم کا عطیہ اور تحفہ بھی مراد ہو سکتا ہے۔ بنابریں جب دل میں حرص نہ ہو اور خود زبان سے یا حال سے اس کے حصول کا تقاضا بھی نہ ہو تو پھر جو کچھ وصول ہو اسے اخذ کر لے بشرطیکہ حلال ہو حرام نہ ہو۔ 2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مالی حرص و طمع کے ساتھ سوال کرنا بھی حرام ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الزكاة، باب جواز الأخذ بغير سؤال ولا تطلع، حديث:1045.
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عامل کو اپنے کام اور کارکردگی کی اجرت و معاوضہ لے لینا چاہیے کیونکہ اس حدیث میں عطاء سے یہی مراد ہے۔ علاوہ ازیں صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وصولی ٔزکاۃ کی اجرت کے بارے میں فرمائی تھی۔ (صحیح مسلم‘ الزکاۃ‘ باب جواز الأخذ بغیر سؤال ولا تطلع‘ حدیث:۱۰۴۵) یہ امر استحباب ہے‘ وجوب کے لیے نہیں‘ اور اس سے ہر قسم کا عطیہ اور تحفہ بھی مراد ہو سکتا ہے۔ بنابریں جب دل میں حرص نہ ہو اور خود زبان سے یا حال سے اس کے حصول کا تقاضا بھی نہ ہو تو پھر جو کچھ وصول ہو اسے اخذ کر لے بشرطیکہ حلال ہو حرام نہ ہو۔ 2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مالی حرص و طمع کے ساتھ سوال کرنا بھی حرام ہے۔