كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ قَسْمِ الصَّدَقَاتِ صحيح وَعَنْ أَبِي رَافِعٍ - رضي الله عنه: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - بَعَثَ رَجُلًا عَلَى الصَّدَقَةِ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ، فَقَالَ لِأَبِي رَافِعٍ: اصْحَبْنِي، فَإِنَّكَ تُصِيبُ مِنْهَا، قَالَ: حَتَّى آتِيَ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - فَأَسْأَلَهُ. فَأَتَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: ((مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، وَإِنَّا لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالثَّلَاثَةُ، وَابْنُ خُزَيْمَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: صدقات کو تقسیم کرنے کا بیان
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مخزوم کے ایک آدمی کو صدقات و زکاۃ کی وصولی پر مقرر فرمایا۔ اس نے ابورافع رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو‘ تمھیں بھی اس میں سے کچھ حصہ ملے گا۔ اس نے کہا: میں نہیں جاؤں گا تاوقتیکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس بارے میں دریافت کر لوں‘ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں آیا اور آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’قوم کا مولیٰ (آزاد شدہ غلام) بھی انھیں میں ہوتا ہے اور ہمارے لیے صدقات و زکاۃ حلال نہیں ہے۔‘‘ (اسے احمد‘ تینوں (ابوداود ‘ نسائی ‘ ترمذی) ‘ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس آدمی کے لیے خود زکاۃ لینا حرام ہے‘ اسی طرح اس کے غلام پر بھی حرام ہے۔ حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے‘ اس لیے ان کے لیے بھی زکاۃ لینا حرام تھا۔ راوئ حدیث: [حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ ] ان کے نام میں مختلف اقوال ہیں‘ چنانچہ ان کا نام اسلم تھا یا ہرمز یا ثابت یا ابراہیم۔ قبطی تھے۔ یہ دراصل حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔ انھوں نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ انھوں نے غزوۂ بدر سے پہلے ایمان قبول کر لیا تھا مگر اس میں شریک نہیں ہوئے‘ احد اور بعد کے غزوات میں شریک رہے۔ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو ان کے اسلام قبول کرنے کی بشارت ابورافع رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ آپ نے اس مقام مسرت پر اسے آزاد فرما دیا۔ ۳۶ ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع میں مدینہ میں وفات پائی۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الزكاة، باب الصدقة على بني هاشم، حديث:1650، والترمذي، الزكاة، حديث:657، والنسائي، الزكاة، حديث:2613، وأحمد:3 /448، 4 /320، وابن خزيمة:4 /58، حديث:2344، وابن حبان (الإحسان):5 /124، حديث:3282.
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس آدمی کے لیے خود زکاۃ لینا حرام ہے‘ اسی طرح اس کے غلام پر بھی حرام ہے۔ حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے‘ اس لیے ان کے لیے بھی زکاۃ لینا حرام تھا۔ راوئ حدیث: [حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ ] ان کے نام میں مختلف اقوال ہیں‘ چنانچہ ان کا نام اسلم تھا یا ہرمز یا ثابت یا ابراہیم۔ قبطی تھے۔ یہ دراصل حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔ انھوں نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ انھوں نے غزوۂ بدر سے پہلے ایمان قبول کر لیا تھا مگر اس میں شریک نہیں ہوئے‘ احد اور بعد کے غزوات میں شریک رہے۔ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو ان کے اسلام قبول کرنے کی بشارت ابورافع رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ آپ نے اس مقام مسرت پر اسے آزاد فرما دیا۔ ۳۶ ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شروع میں مدینہ میں وفات پائی۔