بلوغ المرام - حدیث 524

كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ قَسْمِ الصَّدَقَاتِ صحيح وَعَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ - رضي الله عنه - قَالَ: مَشَيْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ - رضي الله عنه - إِلَى النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ وَتَرَكْتَنَا، وَنَحْنُ وَهُمْ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِنَّمَا بَنُو الْمُطَّلِبِ وَبَنُو هَاشِمٍ شَيْءٌ وَاحِدٌ)). رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

ترجمہ - حدیث 524

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل باب: صدقات کو تقسیم کرنے کا بیان حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے بنو مطلب کو خیبر کے خمس میں سے حصہ عنایت فرمایا اور ہمیں نظر انداز کردیا‘ حالانکہ آپ کے ساتھ تعلق کے لحاظ سے ہم اور وہ برابر ہیں۔ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بنو مطلب اور بنوہاشم دونوں ایک ہی چیز ہیں۔‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : حضرت جبیر بن مطعم اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کا ’’ہم اور بنو مطلب برابر ہیں‘‘ کہنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: ایک تو یہ کہ جیسی وفاداری اور اطاعت گزاری بنو مطلب کر رہے ہیں ویسی ہم بھی کر رہے ہیں۔ فرماں برداری میں یکساں ہیں۔ دوسرا یہ کہ قرابت داری کے اعتبار سے بھی ہم میں اور ان میں زیادہ تفاوت نہیں‘ جتنا کچھ استحقاق قرابت انھیں آپ سے حاصل ہے اتنا ہی ہمیں بھی حاصل ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بنو عبد شمس میں سے اور حضرت جبیر رضی اللہ عنہ نوفل کی اولاد میں سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ہاشم کی اولاد سے ہیں۔ ہاشم‘ مطلب‘ نوفل اور عبد شمس یہ چاروں عبد مناف کے بیٹے تھے‘ اس طرح حضرت جبیر‘ عثمان اور علی رضی اللہ عنہم وغیرہ کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہی درجے کا ہے۔ حضرت جبیر و عثمان رضی اللہ عنہما کے سوال کا بھی یہی مطلب تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ یہ ٹھیک ہے نسب میں بنو عبد شمس اور بنو نوفل‘ بنو مطلب کے برابر ہیں لیکن بنو مطلب کی بنو ہاشم کے ساتھ باہمی موالاۃ اسلام سے قبل دورجاہلیت میں بھی رہی ہے‘ بنوعبدشمس اور بنو نوفل کے برعکس کہ ان کے بنو ہاشم سے جاہلیت میں ایسے تعلقات نہیں رہے۔ اس لحاظ سے بنومطلب میرے (بنو ہاشم کے) زیادہ قریب ہیں۔ اس قربت کی بنا پر انھیں خمس میں سے دیا گیا ہے اور ان پر زکاۃ حرام ہے۔ اور بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے نہیں دیا گیا اور نہ ان پر زکاۃ حرام ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب ومن الدليل على أن الخمس للإمام، حديث:3140. حضرت جبیر بن مطعم اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کا ’’ہم اور بنو مطلب برابر ہیں‘‘ کہنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: ایک تو یہ کہ جیسی وفاداری اور اطاعت گزاری بنو مطلب کر رہے ہیں ویسی ہم بھی کر رہے ہیں۔ فرماں برداری میں یکساں ہیں۔ دوسرا یہ کہ قرابت داری کے اعتبار سے بھی ہم میں اور ان میں زیادہ تفاوت نہیں‘ جتنا کچھ استحقاق قرابت انھیں آپ سے حاصل ہے اتنا ہی ہمیں بھی حاصل ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بنو عبد شمس میں سے اور حضرت جبیر رضی اللہ عنہ نوفل کی اولاد میں سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ہاشم کی اولاد سے ہیں۔ ہاشم‘ مطلب‘ نوفل اور عبد شمس یہ چاروں عبد مناف کے بیٹے تھے‘ اس طرح حضرت جبیر‘ عثمان اور علی رضی اللہ عنہم وغیرہ کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہی درجے کا ہے۔ حضرت جبیر و عثمان رضی اللہ عنہما کے سوال کا بھی یہی مطلب تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ یہ ٹھیک ہے نسب میں بنو عبد شمس اور بنو نوفل‘ بنو مطلب کے برابر ہیں لیکن بنو مطلب کی بنو ہاشم کے ساتھ باہمی موالاۃ اسلام سے قبل دورجاہلیت میں بھی رہی ہے‘ بنوعبدشمس اور بنو نوفل کے برعکس کہ ان کے بنو ہاشم سے جاہلیت میں ایسے تعلقات نہیں رہے۔ اس لحاظ سے بنومطلب میرے (بنو ہاشم کے) زیادہ قریب ہیں۔ اس قربت کی بنا پر انھیں خمس میں سے دیا گیا ہے اور ان پر زکاۃ حرام ہے۔ اور بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے نہیں دیا گیا اور نہ ان پر زکاۃ حرام ہے۔