كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ قَسْمِ الصَّدَقَاتِ صحيح وَعَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلَالِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ: رَجُلٌ تَحَمَّلَ حَمَالَةً، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَهَا، ثُمَّ يُمْسِكَ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ، اِجْتَاحَتْ مَالَهُ، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُومَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَى مِنْ قَومِهِ: لَقَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا فَاقَةٌ; فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، فَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتٌ يَأْكُلُهَا [صَاحِبُهَا] سُحْتًا)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَابْنُ خُزَيْمَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: صدقات کو تقسیم کرنے کا بیان
حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سوال کرنا صرف تین آدمیوں کے لیے جائز ہے: ایک وہ شخص جس نے کوئی ضمانت اٹھا لی تو اس (ضامن) کے لیے سوال کرنا جائز ہے حتی کہ وہ (سوال کر کے) اتنی رقم حاصل کر لے‘ پھر وہ سوال کرنے سے رک جائے۔ اور دوسرا وہ آدمی جسے کوئی ناگہانی مصیبت پہنچی جس نے اس کا مال تباہ و برباد کر دیا تو اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے پاس اتنی رقم ہو جائے جس سے وہ اپنی گزران حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ اور تیسرا وہ شخص جسے فقر و فاقہ گھیر لے‘ اور اس کی قوم کے تین صاحب عقل آدمی اس کی شہادت دیں کہ واقعی فلاں شخص فقر و فاقے کی حالت میں مبتلا ہے‘ تو اس کے لیے بھی سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے پاس اتنی رقم ہو جائے جس سے وہ اپنی گزران حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے اے قبیصہ! سوال کرنا اور مانگنا حرام ہے۔ مانگنے والا سوال کر کے جو کچھ حاصل کرے گا‘ وہ حرام مال کھائے گا۔‘‘ (اسے مسلم‘ ابوداود‘ ابن خزیمہ‘ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث میں سوال کرنے والے کی حالت معلوم کرنے کے لیے ایک ضابطہ بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ اس کی برادری یا قوم کے تین سرکردہ صاحب عقل و دانش آدمی اس کی حالت‘ کسمپرسی اور فاقہ کشی کی شہادت دیں تو اسے سوال کرنے کی اجازت ہے۔ 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین قسم کے آدمیوں کے لیے سوال کرنا جائز ہے اور اس میں سائلین کی حالت کو جانچنے اور تحقیق کرنے کا بھی حکم ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اسلام نے گداگری کی کس طرح حوصلہ شکنی کی ہے اور محنت و مزدوری کی ترغیب دی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت قبیصہ بن مخارق الہلالی رضی اللہ عنہ ] ابو بشر کنیت ہے۔ قبیصہ میں ’’قاف‘‘ پر فتحہ اور ’’با‘‘ کے نیچے کسرہ ہے۔ اور مُخارق میں ’’میم‘‘ پر ضمہ ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: قبیصۃ بن مُخارق بن عبداللّٰہ بن شداد العامري الھلالي۔ شرف صحابیت سے مشرف تھے۔ بصرہ میں رہائش پذیر ہوئے‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد کے ساتھ آئے اور آپ سے احادیث سنیں۔ چھ حدیثوں کے راوی ہیں۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الزكاة، باب من تحل له الصدقة، حديث:1044، وأبوداود، الزكاة، حديث:1640، وابن خزيمة:4 /65، حديث:2360، وابن حبان(الإحسان1):5 /168، حديث:3387.
1. اس حدیث میں سوال کرنے والے کی حالت معلوم کرنے کے لیے ایک ضابطہ بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ اس کی برادری یا قوم کے تین سرکردہ صاحب عقل و دانش آدمی اس کی حالت‘ کسمپرسی اور فاقہ کشی کی شہادت دیں تو اسے سوال کرنے کی اجازت ہے۔ 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین قسم کے آدمیوں کے لیے سوال کرنا جائز ہے اور اس میں سائلین کی حالت کو جانچنے اور تحقیق کرنے کا بھی حکم ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اسلام نے گداگری کی کس طرح حوصلہ شکنی کی ہے اور محنت و مزدوری کی ترغیب دی ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت قبیصہ بن مخارق الہلالی رضی اللہ عنہ ] ابو بشر کنیت ہے۔ قبیصہ میں ’’قاف‘‘ پر فتحہ اور ’’با‘‘ کے نیچے کسرہ ہے۔ اور مُخارق میں ’’میم‘‘ پر ضمہ ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: قبیصۃ بن مُخارق بن عبداللّٰہ بن شداد العامري الھلالي۔ شرف صحابیت سے مشرف تھے۔ بصرہ میں رہائش پذیر ہوئے‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد کے ساتھ آئے اور آپ سے احادیث سنیں۔ چھ حدیثوں کے راوی ہیں۔