بلوغ المرام - حدیث 520

كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ قَسْمِ الصَّدَقَاتِ صحيح عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا لِخَمْسَةٍ: لِعَامِلٍ عَلَيْهَا، أَوْ رَجُلٍ اشْتَرَاهَا بِمَالِهِ، أَوْ غَارِمٍ، أَوْ غَازٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ مِسْكِينٍ تُصُدِّقَ عَلَيْهِ مِنْهَا، فَأَهْدَى مِنْهَا لِغَنِيٍّ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَابْنُ مَاجَهْ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ، وَأُعِلَّ بِالْإِرْسَالِ.

ترجمہ - حدیث 520

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل باب: صدقات کو تقسیم کرنے کا بیان حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانچ قسم کے افراد کے علاوہ کسی امیر اور مال دار آدمی کے لیے صدقہ (اور زکاۃ) حلال نہیں ہے۔ 1. زکاۃ و صدقات اکٹھا کرنے والا۔ 2. وہ (دولت مند) شخص جو صدقے کی چیز اپنے مال کے بدلے خرید لیتا ہے۔ 3.مقروض۔ 4. اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔ 5.مسکین کو صدقہ دیا گیا اور اس نے وہ کسی غنی اور مال دار آدمی کو تحفے کے طور پر دے دیا۔‘‘ (اسے احمد‘ ابوداود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور اس میں مرسل ہونے کی علت بیان کی گئی ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غنی کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں۔ 2.غنی کون ہے؟ اس کی تعریف میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ ابوداود میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: غنی کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جس کے پاس اتنی چیز ہو کہ اس کی صبح شام کی گزر بسر ہو سکے۔‘‘ (سنن أبي داود‘ الزکاۃ‘ باب من یعطی من الصدقۃ و حد الغنی‘ حدیث:۱۶۲۹) اور سنن نسائی میں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’جس کی ملکیت میں ایک اوقیہ ہو‘ اس کے باوجود اگر وہ سوال کرے تو اس نے لپٹ چمٹ کر‘ یعنی اصرار سے سوال کیا۔‘‘
تخریج : أخرجه أبوداود، الزكاة، باب من يجوز له أخذ الصدقة، وهو غني، حديث: 1636، وابن ماجه، الزكاة، حديث:1841، وأحمد:2 /164، 3 /31، 40، 56، 97، والحاكم:1 /407، 408، والعلة مردودة. 1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غنی کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں۔ 2.غنی کون ہے؟ اس کی تعریف میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ ابوداود میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: غنی کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جس کے پاس اتنی چیز ہو کہ اس کی صبح شام کی گزر بسر ہو سکے۔‘‘ (سنن أبي داود‘ الزکاۃ‘ باب من یعطی من الصدقۃ و حد الغنی‘ حدیث:۱۶۲۹) اور سنن نسائی میں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’جس کی ملکیت میں ایک اوقیہ ہو‘ اس کے باوجود اگر وہ سوال کرے تو اس نے لپٹ چمٹ کر‘ یعنی اصرار سے سوال کیا۔‘‘