کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ عُمَرَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ يَتَوَضَّأُ، فَيُسْبِغُ الْوُضُوءَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ)). أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ. وَالتِّرْمِذِيُّ، وَزَادَ: ((اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ، وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ)).
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: وضو کے احکام ومسائل
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ وہ وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے‘ پھر یوں کہے: [أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ‘ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ] ’’میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں‘ وہ یکتا ہے‘اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں اور میں اس بات کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘ جس سے چاہے داخل ہو جائے۔‘‘ (اسے مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔) اور ترمذی نے یہ اضافہ کیا ہے: ’’اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں میں سے کر دے۔‘‘
تشریح :
راوئ حدیث: [حضرت عمر رضی اللہ عنہ ] مراد عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کی کنیت ابوحفص ہے۔ نادرالوجود شخصیت تھے۔ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔ انھوں نے آفاق ارض کو حکم‘ عدل اور فتوحات سے بھر دیا تھا۔ دور جاہلیت میں قبیلہ ٔقریش کے سفیر تھے۔ ۶ نبوت ذی الحجہ کو دارارقم میں دست نبوت پر بیعت کر کے دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے۔ ان کے قبول اسلام میں ان کے بہنوئی سعید اور بہن فاطمہ رضی اللہ عنہما کا بڑا کردار ہے۔ سارے غزوات میں شریک رہے۔ ان کے عہد خلافت میں فتوحات کا سیلاب امنڈ آیا تھا۔ عراق‘ فارس‘ شام اور مصر وغیرہ کے علاقے اسلامی سلطنت کی حدود میں شامل ہوئے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مجوسی غلام ابولؤلؤ کے قاتلانہ حملے سے یکم محرم‘ ۲۴ہجری میں شہادت پائی۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الطهارة، باب الذكر المستحب عقب الوضوء، حديث:234، دون الزيادة وهو حديث صحيح، والترمذي، الطهارة، حديث:55 بالزيادة وسند الترمذي ضعيف.
راوئ حدیث: [حضرت عمر رضی اللہ عنہ ] مراد عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کی کنیت ابوحفص ہے۔ نادرالوجود شخصیت تھے۔ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔ انھوں نے آفاق ارض کو حکم‘ عدل اور فتوحات سے بھر دیا تھا۔ دور جاہلیت میں قبیلہ ٔقریش کے سفیر تھے۔ ۶ نبوت ذی الحجہ کو دارارقم میں دست نبوت پر بیعت کر کے دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے۔ ان کے قبول اسلام میں ان کے بہنوئی سعید اور بہن فاطمہ رضی اللہ عنہما کا بڑا کردار ہے۔ سارے غزوات میں شریک رہے۔ ان کے عہد خلافت میں فتوحات کا سیلاب امنڈ آیا تھا۔ عراق‘ فارس‘ شام اور مصر وغیرہ کے علاقے اسلامی سلطنت کی حدود میں شامل ہوئے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مجوسی غلام ابولؤلؤ کے قاتلانہ حملے سے یکم محرم‘ ۲۴ہجری میں شہادت پائی۔