بلوغ المرام - حدیث 516

كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم: ((مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 516

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل باب: نفلی صدقے سے متعلق احکام و مسائل حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو آدمی (پیشہ ور گدا گر ) لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا اور بھیک مانگتا رہتا ہے‘ وہ قیامت کے روز ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت تک نہ ہوگا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح : اس حدیث سے گداگری کے پیشے کی مذمت معلوم ہو رہی ہے۔ سوال کرنا اور مانگنا صرف تین قسم کے آدمیوں کے لیے جائز ہے۔ حضرت قبیصہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے قبیصہ! صرف تین اشخاص کے لیے سوال کرنا جائز ہے: ایک وہ شخص جس نے کوئی ضمانت اٹھا لی (کسی شخص کے متعلق وعدہ کر لیا کہ میں اس کا ذمہ دار ہوں‘ اگر یہ فلاں وقت تک پیسے نہیں دے گا تو میں دے دوں گا‘ پھر وہ حسب وعدہ نہیں دیتا اور ضامن کو دینے پڑتے ہیں) تو اس ضامن کے لیے اس ادا کی جانے والی رقم کی حد تک سوال کرنا جائز ہے حتی کہ وہ اتنی رقم سوال کر کے حاصل کرے‘ پھر وہ سوال کرنے سے رک جائے۔ اور دوسرا وہ شخص کہ اسے کوئی آفت پہنچی جس نے اس کا سارا مال تباہ کر دیا‘ تو اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے پاس اتنی رقم ہو جائے جس سے وہ اپنی گزران حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ اور تیسرا وہ شخص کہ فقر و فاقہ اسے گھیر لے‘ علاوہ ازیں اس کی قوم میں سے تین عقل مند آدمی اس کے معاملے کو لے کر کھڑے ہوں اور وہ کہیں کہ فلاں شخص فقر و فاقے کی حالت میں مبتلا ہے‘ تو اس کے لیے بھی سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے پاس اتنی رقم ہو جائے جس سے وہ اپنی گزران حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ اے قبیصہ! ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے سوال کرنے کو میں حرام سمجھتا ہوں۔ وہ سوال کر کے جو کچھ حاصل کرے گا‘ وہ حرام مال کھائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم‘ الزکاۃ‘ باب من تحل لہ المسألۃ للناس‘ حدیث:۱۰۴۴) بنابریں ہر سوال کرنے والے کو سوچ لینا چاہیے کہ وہ ان تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت کی ذیل میں آتا ہے؟ اگر آتا ہے تو یقینا اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے‘ بصورت دیگر اس کے لیے سوال کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج : أخرجه البخاري، الزكاة، باب من سأل الناس تكثرًا، حديث:1474، ومسلم، الزكاة، باب كراهة المسألة للناس، حديث:1040. اس حدیث سے گداگری کے پیشے کی مذمت معلوم ہو رہی ہے۔ سوال کرنا اور مانگنا صرف تین قسم کے آدمیوں کے لیے جائز ہے۔ حضرت قبیصہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے قبیصہ! صرف تین اشخاص کے لیے سوال کرنا جائز ہے: ایک وہ شخص جس نے کوئی ضمانت اٹھا لی (کسی شخص کے متعلق وعدہ کر لیا کہ میں اس کا ذمہ دار ہوں‘ اگر یہ فلاں وقت تک پیسے نہیں دے گا تو میں دے دوں گا‘ پھر وہ حسب وعدہ نہیں دیتا اور ضامن کو دینے پڑتے ہیں) تو اس ضامن کے لیے اس ادا کی جانے والی رقم کی حد تک سوال کرنا جائز ہے حتی کہ وہ اتنی رقم سوال کر کے حاصل کرے‘ پھر وہ سوال کرنے سے رک جائے۔ اور دوسرا وہ شخص کہ اسے کوئی آفت پہنچی جس نے اس کا سارا مال تباہ کر دیا‘ تو اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے پاس اتنی رقم ہو جائے جس سے وہ اپنی گزران حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ اور تیسرا وہ شخص کہ فقر و فاقہ اسے گھیر لے‘ علاوہ ازیں اس کی قوم میں سے تین عقل مند آدمی اس کے معاملے کو لے کر کھڑے ہوں اور وہ کہیں کہ فلاں شخص فقر و فاقے کی حالت میں مبتلا ہے‘ تو اس کے لیے بھی سوال کرنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے پاس اتنی رقم ہو جائے جس سے وہ اپنی گزران حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔ اے قبیصہ! ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے سوال کرنے کو میں حرام سمجھتا ہوں۔ وہ سوال کر کے جو کچھ حاصل کرے گا‘ وہ حرام مال کھائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم‘ الزکاۃ‘ باب من تحل لہ المسألۃ للناس‘ حدیث:۱۰۴۴) بنابریں ہر سوال کرنے والے کو سوچ لینا چاہیے کہ وہ ان تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت کی ذیل میں آتا ہے؟ اگر آتا ہے تو یقینا اس کے لیے سوال کرنا جائز ہے‘ بصورت دیگر اس کے لیے سوال کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ واللّٰہ أعلم۔