كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ صحيح وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: جَاءَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ أَمَرْتَ الْيَوْمَ بِالصَّدَقَةِ، وَكَانَ عِنْدِي حُلِيٌّ لِي، فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ، فَزَعَمَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّهُ وَوَلَدُهُ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم: ((صَدَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ، زَوْجُكِ وَوَلَدُكِ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِهِ عَلَيْهِمْ)). رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: نفلی صدقے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا آئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے آج صدقہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ میرے پاس میرا ذاتی زیور ہے‘ میں چاہتی ہوں کہ اسے صدقہ کر دوں مگر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ وہ اور اس کی اولاد زیادہ مستحق ہیں کہ انھی کو صدقہ دوں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ٹھیک کہا ہے۔ تیرا شوہر اور تیری اولاد تیرے صدقے کے زیادہ مستحق ہیں۔‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
لفظ ’’صدقہ‘‘ نفلی صدقہ‘ فرض زکاۃ اور صدقۂ فطر (فطرانہ) سب پر مشترک طور پر بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی زکاۃ کی تقسیم کے مصارف کے موقع پر لفظ صدقہ ہی استعمال ہوا ہے۔ اگر اس بات کا کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو کہ یہاں عام صدقہ مراد ہے تو ایسی صورت میں اصول یہ ہے کہ اس سے مراد زکاۃ ہوتی ہے۔ اس مقام پر بھی بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرض صدقہ ہے‘ اس لیے کہ نفلی صدقے کے متعلق پوچھنے کی تو ضرورت ہی نہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک بیوی اپنے شوہر کو اپنی زکاۃ دے سکتی ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بیوی اپنے شوہر کو زکاۃ نہیں دے سکتی۔ لیکن ان کا یہ قول اس صریح حدیث کے مخالف ہے۔ اور اس مسئلے پر سب کا اتفاق ہے کہ شوہر اپنی اہلیہ کو زکاۃ نہیں دے سکتا۔ اس حدیث کی روشنی میں جب بیوی فرض زکاۃ دے سکتی ہے تو نفلی صدقہ بدرجۂ اولیٰ دے سکتی ہے۔راوئ حدیث: [زینب رضی اللہ عنہا ] یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجۂ محترمہ ہیں۔ بنو ثقیف سے ہونے کی وجہ سے ثقفیہ کہلائیں۔ ان کے باپ کا نام معاویہ یا عبداللہ بن معاویہ یا ابو معاویہ ہے۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ اپنے شوہر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایات بیان کی ہیں۔ اور ان سے ان کے بیٹے‘ بھتیجے اور بعض دوسرے احباب نے احادیث روایت کی ہیں۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الزكاة، باب الزكاة على الأقارب، حديث:1462.
لفظ ’’صدقہ‘‘ نفلی صدقہ‘ فرض زکاۃ اور صدقۂ فطر (فطرانہ) سب پر مشترک طور پر بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی زکاۃ کی تقسیم کے مصارف کے موقع پر لفظ صدقہ ہی استعمال ہوا ہے۔ اگر اس بات کا کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو کہ یہاں عام صدقہ مراد ہے تو ایسی صورت میں اصول یہ ہے کہ اس سے مراد زکاۃ ہوتی ہے۔ اس مقام پر بھی بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرض صدقہ ہے‘ اس لیے کہ نفلی صدقے کے متعلق پوچھنے کی تو ضرورت ہی نہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک بیوی اپنے شوہر کو اپنی زکاۃ دے سکتی ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بیوی اپنے شوہر کو زکاۃ نہیں دے سکتی۔ لیکن ان کا یہ قول اس صریح حدیث کے مخالف ہے۔ اور اس مسئلے پر سب کا اتفاق ہے کہ شوہر اپنی اہلیہ کو زکاۃ نہیں دے سکتا۔ اس حدیث کی روشنی میں جب بیوی فرض زکاۃ دے سکتی ہے تو نفلی صدقہ بدرجۂ اولیٰ دے سکتی ہے۔راوئ حدیث: [زینب رضی اللہ عنہا ] یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجۂ محترمہ ہیں۔ بنو ثقیف سے ہونے کی وجہ سے ثقفیہ کہلائیں۔ ان کے باپ کا نام معاویہ یا عبداللہ بن معاویہ یا ابو معاویہ ہے۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ اپنے شوہر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایات بیان کی ہیں۔ اور ان سے ان کے بیٹے‘ بھتیجے اور بعض دوسرے احباب نے احادیث روایت کی ہیں۔