كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ حسن وَعَنْهُ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((تَصَدَّقُوا))، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عِنْدِي دِينَارٌ؟ قَالَ: ((تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ))، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ: ((تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى وَلَدِكَ)) قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ: ((تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى خَادِمِكَ)) قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ: ((أَنْتَ أَبْصَرُ)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: نفلی صدقے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صدقہ و خیرات کرو۔‘‘ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے تو اپنی جان پر صدقہ کر۔‘‘ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک اور بھی ہے‘ آپ نے فرمایا: ’’اسے اپنی اولاد پر صدقہ (خرچ) کر۔‘‘ اس نے پھر کہا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے اپنی اہلیہ پر صدقہ (خرچ) کر۔‘‘ اس نے پھر کہا کہ میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے اپنے خادم پر صدقہ (خرچ) کر۔‘‘ وہ کہنے لگا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کے خرچ کرنے کی بابت تو بہتر جانتا ہے۔‘‘ (اسے ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا اپنی ذات پر حدود شرعی کے اندر رہتے ہوئے خرچ کرنا بھی صدقہ و خیرات کرنے کی طرح اجر و ثواب رکھتا ہے۔ ترتیب اس طرح بیان ہوئی ہے کہ پہلے اپنی ذات پر‘ پھر اولاد پر‘ پھر بیوی پر اور پھر خادم پر۔ جو بچ جائے اسے اس کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ چاہے تو کسی جگہ خرچ کر دے اور چاہے تو اسے اپنے پاس محفوظ رکھے تاکہ آئندہ کسی کام آئے‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ اہل حقوق کی ترتیب کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہے تاکہ کسی مستحق کا استحقاق مجروح نہ ہو۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في صلة الرحم، حديث:1691، والنسائي، الزكاة، حديث:2536، وابن حبان (الإحسان):5 /141، حديث:3326، والحاكم:1 /415.
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا اپنی ذات پر حدود شرعی کے اندر رہتے ہوئے خرچ کرنا بھی صدقہ و خیرات کرنے کی طرح اجر و ثواب رکھتا ہے۔ ترتیب اس طرح بیان ہوئی ہے کہ پہلے اپنی ذات پر‘ پھر اولاد پر‘ پھر بیوی پر اور پھر خادم پر۔ جو بچ جائے اسے اس کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ چاہے تو کسی جگہ خرچ کر دے اور چاہے تو اسے اپنے پاس محفوظ رکھے تاکہ آئندہ کسی کام آئے‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ اہل حقوق کی ترتیب کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہے تاکہ کسی مستحق کا استحقاق مجروح نہ ہو۔