كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ? قَالَ: ((جُهْدُ الْمُقِلِّ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ)). أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: نفلی صدقے سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’کم مال والے کا محنت مشقت کر کے صدقہ دینا۔ اور صدقے کی ابتدا ان سے کرو جن کی کفالت کے تم ذمہ دار ہو۔‘‘ (اسے احمداور ابوداود نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ‘ ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث سے دو باتیں واضح طور پر معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ امیر و مال دار اور غریب و مفلس کے صدقہ و خیرات میں نمایاں فرق ہے۔ اور دوسری یہ کہ اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے بعد صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ خود تو صدقہ دیتا پھرے اور اس کے اہل و عیال محتاج ہوں اور دوسروں کے روبرو دست سوال دراز کرتے پھریں‘ اس لیے اپنے گھر والوں کی جائز شرعی ضروریات کی تکمیل کے بعد دوسروں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اول خویش بعد درویش کا محاورہ اس پر خوب چسپاں ہوتا ہے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في الرخصة في ذلك، حديث:1677، وأحمد:2 /358، 3 /412، وابن حبان (الإحسان):5 /144، حديث:333، والحاكم:1 /414، وابن خزيمة:4 /99، حديث:2444، 2451.
اس حدیث سے دو باتیں واضح طور پر معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ امیر و مال دار اور غریب و مفلس کے صدقہ و خیرات میں نمایاں فرق ہے۔ اور دوسری یہ کہ اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے بعد صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ خود تو صدقہ دیتا پھرے اور اس کے اہل و عیال محتاج ہوں اور دوسروں کے روبرو دست سوال دراز کرتے پھریں‘ اس لیے اپنے گھر والوں کی جائز شرعی ضروریات کی تکمیل کے بعد دوسروں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اول خویش بعد درویش کا محاورہ اس پر خوب چسپاں ہوتا ہے۔