كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ حسن وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - زَكَاةَ الْفِطْرِ; طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، فَمَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَابْنُ مَاجَهْ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: صدقۂ فطر سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر (فطرانہ) روزے دار کو لغویات اور فحش گوئی سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے مقرر کیا ہے۔ جس نے اسے نماز ادا کرنے سے پہلے ادا کر دیا تو وہ مقبول ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو یہ (عام) صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔ (صدقۂ فطر نہیں۔) (اسے ابوداود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ فطرانہ مساکین کا حق ہے۔ یہ حق نماز عید سے پہلے ادا کر دینا چاہیے۔ نماز عید کے بعد ادا شدہ فطرانہ ایک عام صدقہ ہو گا‘ فطرانۂ عید نہیں ہوگا۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الزكاة، باب زكاة الفطر، حديث:1609، وابن ماجه، الزكاة، حديث:1827، والحاكم:1 /409.
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ فطرانہ مساکین کا حق ہے۔ یہ حق نماز عید سے پہلے ادا کر دینا چاہیے۔ نماز عید کے بعد ادا شدہ فطرانہ ایک عام صدقہ ہو گا‘ فطرانۂ عید نہیں ہوگا۔ واللّٰہ أعلم۔