كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ صحيح وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: كُنَّا نُعْطِيهَا فِي زَمَانِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ: أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ)). قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ. وَلِأَبِي دَاوُدَ: لَا أُخْرِجُ أَبَدًا إِلَّا صَاعًا.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: صدقۂ فطر سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اناج (گندم)‘ کھجور‘ جو یا کشمش (منقیٰ) سے ایک صاع (فطرانہ) دیا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) اور ایک روایت میں ہے: ’’یا پنیر میں سے ایک صاع نکالا کرتے تھے۔‘‘ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو ہمیشہ وہی مقدار نکالتا رہوں گا جو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نکالا کرتا تھا۔ اور ابوداود کی روایت میں ہے: میں تو ہمیشہ ایک صاع ہی نکالوں گا۔
تشریح :
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں گندم کے سوا باقی تمام اجناس میں سے احادیث کی روشنی میں ایک ایک صاع فطرانے کے طور پر دینے پر اتفاق تھا‘ صرف گندم میں اختلاف تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے کے پیش نظر گندم کا آدھا صاع نکالنے کا مشورہ دیا۔ گندم چونکہ مہنگی بھی تھی اور قلیل بھی تو ان کی اس رائے سے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اتفاق کر لیا‘ دیکھیے: (صحیح البخاري‘ الزکاۃ‘ حدیث:۱۵۰۸‘ وصحیح مسلم‘ الزکاۃ‘ حدیث:(۱۸).۹۸۵) امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اس مذکورہ بالا اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض اہل علم کا یہ موقف بھی ہے کہ ہر چیز کا ایک صاع دیا جائے سوائے گندم کے کہ اس کا فطرانے میں نصف صاع بھی کفایت کر جاتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي‘ الزکاۃ‘ حدیث:۶۷۳) اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ہی ہے یا سنت سے اس کی دلیل بھی ملتی ہے؟ ہاں‘ اس بارے میں مرفوع احادیث بھی آتی ہیں جنھیں کچھ علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ آدھے صاع گندم کی حدیث کے بہت سے شواہد ہیں جیسا شیخ کہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَلِلْحَدِیثِ شَوَاھِدُ کَثِیرَۃٌ)) (الصحیحۃ:۳ /۱۷۱) اور وہ حدیث یہ ہے: [أَدُّوا صَاعًا مِّنْ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَیْنَ اثْنَـیْنِ…] ’’گندم کا ایک صاع دو افراد کو ادا کرو۔‘‘ اس حدیث سے واضح ہوا کہ نصف صاع ایک فرد کو دیا جا سکتا ہے۔ اس کی تائید جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے صحیح امر سے بھی ہوتی ہے‘ فرماتے ہیں: ((صَدْقَۃُ الْفِطْرِ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَغِیرٍ وَکَبِیرٍ‘ عَبْدٍ أَوْحُرٍّ مُدَّانِ مِنْ قَمْحٍ…))’’فطرانہ ہر مسلمان پر (ضروری) ہے‘ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ غلام ہو یا آزاد‘ گندم کے دو مد (آدھا صاع۔‘‘) (سنن الدارقطني:۲ /۳۴۶) اس بحث سے معلوم ہوا کہ یہ صرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کی رائے نہ تھی بلکہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ان کی اس رائے سے متفق تھے اور ان کی اس رائے کی تائید مرفوع صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے‘ اس لیے اگر کوئی شخص ایک صاع گندم کے بجائے آدھا صاع گندم بھی فطرانے میں دے دیتا ہے تو ان شاء اللہ یہ بھی جائز ہو گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن أبي داود (مفصل) للألباني:۵ /۳۲۴) لیکن افضل اور اولیٰ گندم کا پورا صاع دینا ہی ہے جیسا کہ عمومی احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الزكاة، باب صاع من زبيب،حديث:1508، ومسلم، الزكاة، باب زكاة الفطر على المسلمين من التمر والشعير، حديث:985، وأبوداود، الزكاة، حديث:1616-1618.
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں گندم کے سوا باقی تمام اجناس میں سے احادیث کی روشنی میں ایک ایک صاع فطرانے کے طور پر دینے پر اتفاق تھا‘ صرف گندم میں اختلاف تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے کے پیش نظر گندم کا آدھا صاع نکالنے کا مشورہ دیا۔ گندم چونکہ مہنگی بھی تھی اور قلیل بھی تو ان کی اس رائے سے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اتفاق کر لیا‘ دیکھیے: (صحیح البخاري‘ الزکاۃ‘ حدیث:۱۵۰۸‘ وصحیح مسلم‘ الزکاۃ‘ حدیث:(۱۸).۹۸۵) امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اس مذکورہ بالا اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض اہل علم کا یہ موقف بھی ہے کہ ہر چیز کا ایک صاع دیا جائے سوائے گندم کے کہ اس کا فطرانے میں نصف صاع بھی کفایت کر جاتا ہے۔‘‘ (جامع الترمذي‘ الزکاۃ‘ حدیث:۶۷۳) اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ہی ہے یا سنت سے اس کی دلیل بھی ملتی ہے؟ ہاں‘ اس بارے میں مرفوع احادیث بھی آتی ہیں جنھیں کچھ علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ آدھے صاع گندم کی حدیث کے بہت سے شواہد ہیں جیسا شیخ کہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَلِلْحَدِیثِ شَوَاھِدُ کَثِیرَۃٌ)) (الصحیحۃ:۳ /۱۷۱) اور وہ حدیث یہ ہے: [أَدُّوا صَاعًا مِّنْ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَیْنَ اثْنَـیْنِ…] ’’گندم کا ایک صاع دو افراد کو ادا کرو۔‘‘ اس حدیث سے واضح ہوا کہ نصف صاع ایک فرد کو دیا جا سکتا ہے۔ اس کی تائید جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے صحیح امر سے بھی ہوتی ہے‘ فرماتے ہیں: ((صَدْقَۃُ الْفِطْرِ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَغِیرٍ وَکَبِیرٍ‘ عَبْدٍ أَوْحُرٍّ مُدَّانِ مِنْ قَمْحٍ…))’’فطرانہ ہر مسلمان پر (ضروری) ہے‘ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ غلام ہو یا آزاد‘ گندم کے دو مد (آدھا صاع۔‘‘) (سنن الدارقطني:۲ /۳۴۶) اس بحث سے معلوم ہوا کہ یہ صرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کی رائے نہ تھی بلکہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ان کی اس رائے سے متفق تھے اور ان کی اس رائے کی تائید مرفوع صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے‘ اس لیے اگر کوئی شخص ایک صاع گندم کے بجائے آدھا صاع گندم بھی فطرانے میں دے دیتا ہے تو ان شاء اللہ یہ بھی جائز ہو گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن أبي داود (مفصل) للألباني:۵ /۳۲۴) لیکن افضل اور اولیٰ گندم کا پورا صاع دینا ہی ہے جیسا کہ عمومی احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔