بلوغ المرام - حدیث 505

كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ صحيح عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - زَكَاةَ الْفِطْرِ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ: عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ، وَالْكَبِيرِ، مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَلِابْنِ عَدِيٍّ [مِنْ وَجْهٍ آخَرَ] ، وَالدَّارَقُطْنِيِّ بِإِسْنَادٍ ضَعِيفٍ: ((اغْنُوهُمْ عَنِ الطَّوَافِ فِي هَذَا الْيَوْمِ)).

ترجمہ - حدیث 505

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل باب: صدقۂ فطر سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں سے ہر غلام‘ آزاد‘ مرد‘ عورت‘ چھوٹے اور بڑے پر ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جو صدقۂ فطر فرض کیا ہے۔ اور اس کے متعلق حکم دیا ہے کہ اسے نماز (عید) کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔ (بخاری و مسلم) ابن عدی اور دارقطنی میں ضعیف سند سے ہے: ’’اس (عید والے) دن ان (غرباء) کو دربدر پھرنے سے بے نیاز کر دو۔‘‘
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فطرانہ مسلمانوں کے تمام افراد پر واجب ہے اور اس کی ادائیگی کا حکم بھی نماز عید سے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مند افراد اس روز مانگنے سے بے نیاز ہو کر عام مسلمانوں کے ساتھ خوشیوں اور مسرتوں میں شریک ہو سکیں۔ 2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانے کی مقدار ایک صاع مقرر فرمائی ہے۔ 3.صدقۂ فطر میں نقدی ادا کرنے کا موقف بعض علمائے کرام نے اپنایا ہے لیکن فرامین نبوی اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اسوۂ حسنہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ صدقۂ فطر میں وہ جنس ادا کرنی چاہیے جو اہل خانہ کی عمومی غذا ہو‘ مثلاً: گندم‘ چاول اور کھجور وغیرہ۔ 4.غیرمسلم غلام کا فطرانہ نہیں‘ البتہ جن افراد کی کفالت کسی کے ذمے ہو ان سب کا فطرانہ وہ خود ادا کرے گا۔ 5.حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صدقۂ فطر کے لیے نصاب کا مالک ہونا بھی ضروری نہیں۔ 6. فرض کا لفظ بتا رہا ہے کہ فطرانہ ادا کرنا نہایت ضروری اور لازمی ہے۔ امام اسحٰق بن راہویہ رحمہ اللہ نے تو فطرانے کے وجوب پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الزكاة، باب فرض صدقة الفطر،حديث:1503، ومسلم، الزكاة، باب زكاة الفطر علي المسلمين من التمر والشعير، حديث:984، وحديث "أغنوهم عن الطواف.." أخرجه ابن عدي:7 /2519، والدارقطني:2 /153، فيه أبومعشر نجيح السندي وهو ضعيف، وللحديث شواهد ضعيفة. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فطرانہ مسلمانوں کے تمام افراد پر واجب ہے اور اس کی ادائیگی کا حکم بھی نماز عید سے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مند افراد اس روز مانگنے سے بے نیاز ہو کر عام مسلمانوں کے ساتھ خوشیوں اور مسرتوں میں شریک ہو سکیں۔ 2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانے کی مقدار ایک صاع مقرر فرمائی ہے۔ 3.صدقۂ فطر میں نقدی ادا کرنے کا موقف بعض علمائے کرام نے اپنایا ہے لیکن فرامین نبوی اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اسوۂ حسنہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ صدقۂ فطر میں وہ جنس ادا کرنی چاہیے جو اہل خانہ کی عمومی غذا ہو‘ مثلاً: گندم‘ چاول اور کھجور وغیرہ۔ 4.غیرمسلم غلام کا فطرانہ نہیں‘ البتہ جن افراد کی کفالت کسی کے ذمے ہو ان سب کا فطرانہ وہ خود ادا کرے گا۔ 5.حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صدقۂ فطر کے لیے نصاب کا مالک ہونا بھی ضروری نہیں۔ 6. فرض کا لفظ بتا رہا ہے کہ فطرانہ ادا کرنا نہایت ضروری اور لازمی ہے۔ امام اسحٰق بن راہویہ رحمہ اللہ نے تو فطرانے کے وجوب پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔