بلوغ المرام - حدیث 501

كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ ضعيف وَعَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ - رضي الله عنه - قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَأْمُرُنَا; أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِي نَعُدُّهُ لِلْبَيْعِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَإِسْنَادُهُ لَيِّنٌ.

ترجمہ - حدیث 501

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سامان تجارت سے زکاۃ نکالنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور اس کی سند کمزور ہے۔)
تشریح : مذکورہ روایت کو فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ جامع ترمذی کی حسن درجے کی روایت: [أَدُّوا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ] (حدیث : ۶۱۶) اس کی مؤید ہے‘ نیز اللہ تعالیٰ کے فرمان : ﴿اَنْفِقُوْا مِنْ طَـیِّـبَاتِ مَاکَسَبْتُمْ﴾ (البقرۃ۲:۲۶۷) سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی مال تجارت میں زکاۃ واجب ہے۔ امام ابوداود اور امام منذری اس حدیث کے حکم کی بابت خاموش ہیں۔ امام ابن عبدالبر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ائمۂ اربعہ اور ساری امت کا (سوائے چند شاذ لوگوں کے) اس بات پر اتفاق ہے کہ سامان تجارت میں زکاۃ واجب ہے۔ (القواعد النورانیۃ الفقہیۃ‘ ص:۸۹‘ ۹۰‘ طبع مصر) امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ سال گزرنے پر مال تجارت میں زکاۃ ہے۔ حضرت عمر‘ حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے۔ فقہائے سبعہ‘ حسن‘ جابر بن زید‘ میمون بن مہران‘ طاؤوس‘ النخعی‘ ثوری‘ اوزاعی‘ ابوحنیفہ‘ اسحاق اور ابوعبید رحمہم اللہ کا یہی فتویٰ ہے۔ الغرض احتیاط کا بھی یہی تقاضا ہے کہ مال تجارت کسی بھی قسم کا ہو اس کی قیمت کا اعتبار کر کے اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے۔ واللّٰہ أعلم۔ اموال تجارت میں زکاۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ سال بہ سال جتنا تجارتی مال دکان یا گودام وغیرہ میں ہو‘ اس کی قیمت کا اندازہ کر لیا جائے۔ علاوہ ازیں جتنی رقم گردش میں ہو اور جو رقم موجود ہو‘ اس کو بھی شمار کر لیا جائے۔ نقد رقم ‘ کاروبار میں لگا ہوا سرمایہ اور سامان تجارت کی تخمینی قیمت سب ملا کر جتنی رقم ہو‘ اس میں سے ڈھائی فیصد کے حساب سے زکاۃ ادا کی جائے‘ تاہم اگر کوئی تجارتی مال اس طرح کا ہے کہ وہ خریدا لیکن وہ کئی سال تک فروخت نہیں ہوا تو اس مال کی زکاۃ اس کے فروخت ہونے پر صرف ایک سال کی ادا کی جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی رقم کسی کاروبار میں منجمد ہو گئی ہو جیساکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے اور وہ رقم دو تین سال یا اس سے زیادہ عرصے تک پھنسی رہتی ہے یا کسی ایسی پارٹی کے ساتھ سابقہ پڑجاتا ہے کہ کئی سال رقم وصول نہیں ہوتی تو ایسی ڈوبی ہوئی رقم کی زکاۃ سال بہ سال دینی ضروری نہیں بلکہ رقم جب وصول ہو جائے‘ اس وقت سال کی زکاۃ ادا کر دی جائے۔ ھذاماعندنا واللّٰہ أعلم بالصواب۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الزكاة، باب العروض إذا كانت للتجارة هل فيها من زكاة؟، حديث:1562.* في إسناده خبيب وهو مجهول، وجعفر بن سعد ضعفه الجمهور. مذکورہ روایت کو فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ جامع ترمذی کی حسن درجے کی روایت: [أَدُّوا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ] (حدیث : ۶۱۶) اس کی مؤید ہے‘ نیز اللہ تعالیٰ کے فرمان : ﴿اَنْفِقُوْا مِنْ طَـیِّـبَاتِ مَاکَسَبْتُمْ﴾ (البقرۃ۲:۲۶۷) سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی مال تجارت میں زکاۃ واجب ہے۔ امام ابوداود اور امام منذری اس حدیث کے حکم کی بابت خاموش ہیں۔ امام ابن عبدالبر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ائمۂ اربعہ اور ساری امت کا (سوائے چند شاذ لوگوں کے) اس بات پر اتفاق ہے کہ سامان تجارت میں زکاۃ واجب ہے۔ (القواعد النورانیۃ الفقہیۃ‘ ص:۸۹‘ ۹۰‘ طبع مصر) امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ سال گزرنے پر مال تجارت میں زکاۃ ہے۔ حضرت عمر‘ حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے۔ فقہائے سبعہ‘ حسن‘ جابر بن زید‘ میمون بن مہران‘ طاؤوس‘ النخعی‘ ثوری‘ اوزاعی‘ ابوحنیفہ‘ اسحاق اور ابوعبید رحمہم اللہ کا یہی فتویٰ ہے۔ الغرض احتیاط کا بھی یہی تقاضا ہے کہ مال تجارت کسی بھی قسم کا ہو اس کی قیمت کا اعتبار کر کے اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے۔ واللّٰہ أعلم۔ اموال تجارت میں زکاۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ سال بہ سال جتنا تجارتی مال دکان یا گودام وغیرہ میں ہو‘ اس کی قیمت کا اندازہ کر لیا جائے۔ علاوہ ازیں جتنی رقم گردش میں ہو اور جو رقم موجود ہو‘ اس کو بھی شمار کر لیا جائے۔ نقد رقم ‘ کاروبار میں لگا ہوا سرمایہ اور سامان تجارت کی تخمینی قیمت سب ملا کر جتنی رقم ہو‘ اس میں سے ڈھائی فیصد کے حساب سے زکاۃ ادا کی جائے‘ تاہم اگر کوئی تجارتی مال اس طرح کا ہے کہ وہ خریدا لیکن وہ کئی سال تک فروخت نہیں ہوا تو اس مال کی زکاۃ اس کے فروخت ہونے پر صرف ایک سال کی ادا کی جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی رقم کسی کاروبار میں منجمد ہو گئی ہو جیساکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے اور وہ رقم دو تین سال یا اس سے زیادہ عرصے تک پھنسی رہتی ہے یا کسی ایسی پارٹی کے ساتھ سابقہ پڑجاتا ہے کہ کئی سال رقم وصول نہیں ہوتی تو ایسی ڈوبی ہوئی رقم کی زکاۃ سال بہ سال دینی ضروری نہیں بلکہ رقم جب وصول ہو جائے‘ اس وقت سال کی زکاۃ ادا کر دی جائے۔ ھذاماعندنا واللّٰہ أعلم بالصواب۔