بلوغ المرام - حدیث 500

كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ ضعيف وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا; أَنَّهَا كَانَتْ تَلْبَسُ أَوْضَاحًا مِنْ ذَهَبٍ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَكَنْزٌ هُوَ? فَقَالَ: ((إِذَا أَدَّيْتِ زَكَاتَهُ، فَلَيْسَ بِكَنْزٍ)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالدَّارَقُطْنِيُّ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ.

ترجمہ - حدیث 500

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ سونے کے پازیب پہنا کرتی تھیں۔ انھوں نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول! کیا: یہ کنز ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’جب تو نے اس کی زکاۃ ادا کر دی تو پھر یہ کنز نہیں۔‘‘ (اسے ابوداود اور دارقطنی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : مذکورہ روایت کو فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر مفصل بحث کرتے ہوئے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اور اس کی مفصل بحث سے یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے کہ یہ روایت شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (السلسلۃ الصحیحۃ للألباني‘ رقم:۵۵۹‘ وصحیح سنن أبي داود‘ (مفصل) رقم : ۱۳۹۷) بنابریں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استعمال کے زیور میں بھی زکاۃ ہے اگر وہ نصاب کو پہنچ جائے۔ اس کی تائید میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث مروی ہے جسے فاضل محقق نے بھی سنداً صحیح قرار دیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھوں میں چاندی کی (موٹی موٹی) انگوٹھیاں دیکھیں تو آپ نے پوچھا: ’’عائشہ! یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں نے انھیں آپ کی خاطر زینت کے لیے پہنا ہے۔ آپ نے پوچھا: ’’کیا تم اس کی زکاۃ دیتی ہو؟‘‘ میں نے کہا: نہیں‘ یا اس طرح کی کوئی بات کی۔ تو آپ نے فرمایا: ’’تجھے جہنم میں لے جانے کے لیے یہی کافی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود‘ الزکاۃ‘ باب الکنز ماھو؟ وزکاۃ الحلي‘ حدیث:۱۵۶۵) مذکورہ دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ استعمال ہونے والے زیور میں بھی زکاۃ ہے جبکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الزكاة، باب الكنز ما هو؟، حديث:1564، والدارقطني:2 /105، والحاكم:1 /390. * عطاء بن أبي رباح لم يسمع من أم سلمة كما قال أحمد وغيره، وللمرفوع شواهد. مذکورہ روایت کو فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر مفصل بحث کرتے ہوئے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اور اس کی مفصل بحث سے یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے کہ یہ روایت شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (السلسلۃ الصحیحۃ للألباني‘ رقم:۵۵۹‘ وصحیح سنن أبي داود‘ (مفصل) رقم : ۱۳۹۷) بنابریں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استعمال کے زیور میں بھی زکاۃ ہے اگر وہ نصاب کو پہنچ جائے۔ اس کی تائید میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث مروی ہے جسے فاضل محقق نے بھی سنداً صحیح قرار دیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھوں میں چاندی کی (موٹی موٹی) انگوٹھیاں دیکھیں تو آپ نے پوچھا: ’’عائشہ! یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: میں نے انھیں آپ کی خاطر زینت کے لیے پہنا ہے۔ آپ نے پوچھا: ’’کیا تم اس کی زکاۃ دیتی ہو؟‘‘ میں نے کہا: نہیں‘ یا اس طرح کی کوئی بات کی۔ تو آپ نے فرمایا: ’’تجھے جہنم میں لے جانے کے لیے یہی کافی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود‘ الزکاۃ‘ باب الکنز ماھو؟ وزکاۃ الحلي‘ حدیث:۱۵۶۵) مذکورہ دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ استعمال ہونے والے زیور میں بھی زکاۃ ہے جبکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے۔ واللّٰہ أعلم۔