بلوغ المرام - حدیث 50

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْوُضُوءِ صحيح وَعَنْ أَنَسٍ - رضي الله عنه - قَالَ: رَأَى النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - رَجُلًا، وَفِي قَدَمِهِ مِثْلُ الظُّفْرِ لَمْ يُصِبْهُ الْمَاءُ. فَقَالَ: ((ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ)). أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ.

ترجمہ - حدیث 50

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: وضو کے احکام ومسائل حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک آدمی پر پڑی جس کے پاؤں میں ناخن برابر جگہ پر پانی نہیں پہنچا تھا‘ یعنی خشک رہ گئی تھی۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ ’’واپس جاؤ اور اچھی طرح عمدہ طریقے سے وضو کرو۔‘‘ (اسے ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ سارا پاؤں دھونا فرض ہے۔ 2. ایک دوسری حدیث میں ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ پاؤں کا جتنا حصہ خشک رہ گیا اس کے لیے آگ ہے۔ (صحیح مسلم‘ الطھارۃ‘ باب وجوب غسل الرجلین بکمالہ‘ حدیث:۲۴۱) 3.ابوداود میں بھی خالد بن معدان سے ایک روایت اسی معنی میں منقول ہے کہ آپ نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا کہ اس کے قدم کی پشت پر تھوڑا سا خشک داغ تھا۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ جا‘پہلے دوبارہ وضو کر اور پھر نماز پڑھ۔ (سنن أبي داود‘ الطھارۃ‘ باب تفریق الوضوء‘ حدیث:۱۷۵) 4.یہ اور اسی قبیل کی دوسری روایات اس پر دال ہیں کہ پاؤں کا دھونا فرض ہے‘ مسح ناکافی ہے۔ 5. انھی احادیث کی روشنی میں ائمۂ اربعہ‘ اہل سنت اور مجتہدین امت نے بالاتفاق پاؤں کے دھونے کو فرض قرار دیاہے۔ جو لوگ پاؤں کے دھونے کو فرض قرار نہیں دیتے اور مسح کے قائل ہیں ان احادیث سے ان کے نظریے کی تردید ہوتی ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الطهارة، باب تفريق الوضوء، حديث: 173، والنسائي: لم أجده، وابن ماجه، الطهارة، حديث: 665، وأحمد:3 / 146، ومسلم من حديث عمر، الطهارة، حديث:243. 1. یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ سارا پاؤں دھونا فرض ہے۔ 2. ایک دوسری حدیث میں ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ پاؤں کا جتنا حصہ خشک رہ گیا اس کے لیے آگ ہے۔ (صحیح مسلم‘ الطھارۃ‘ باب وجوب غسل الرجلین بکمالہ‘ حدیث:۲۴۱) 3.ابوداود میں بھی خالد بن معدان سے ایک روایت اسی معنی میں منقول ہے کہ آپ نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا کہ اس کے قدم کی پشت پر تھوڑا سا خشک داغ تھا۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ جا‘پہلے دوبارہ وضو کر اور پھر نماز پڑھ۔ (سنن أبي داود‘ الطھارۃ‘ باب تفریق الوضوء‘ حدیث:۱۷۵) 4.یہ اور اسی قبیل کی دوسری روایات اس پر دال ہیں کہ پاؤں کا دھونا فرض ہے‘ مسح ناکافی ہے۔ 5. انھی احادیث کی روشنی میں ائمۂ اربعہ‘ اہل سنت اور مجتہدین امت نے بالاتفاق پاؤں کے دھونے کو فرض قرار دیاہے۔ جو لوگ پاؤں کے دھونے کو فرض قرار نہیں دیتے اور مسح کے قائل ہیں ان احادیث سے ان کے نظریے کی تردید ہوتی ہے۔