کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْمِيَاهِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا يَغْتَسِلُ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ وَهُوَ جُنُبٌ)). أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ. وَلِلْبُخَارِيِّ: ((لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا يَجْرِي، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ)).وَلِمُسْلِمٍ: ((مِنْهُ)).وَلِأَبِي دَاوُدَ: ((وَلَا يَغْتَسِلُ فِيهِ مِنَ الْجَنَابَةِ)).
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: پانی کے احکام ومسائل (مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی کا بیان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص حالت جنابت میں ہو وہ کھڑے (ساکن) پانی میں غسل نہ کرے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔) اور بخاری کے الفاظ ہیں: ’’تم میں سے کوئی بھی کھڑے پانی میں‘ جو جاری نہ ہو‘ پیشاب نہ کرے اور پھر اس میں غسل کرے۔ صحیح مسلم کے الفاظ ((فِیہِ)) کی بجائے ((مِنْہُ)) ہیں‘ یعنی اس سے کچھ پانی لے کر غسل نہ کرے۔اور ابوداود رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں: ’’اس میں غسل جنابت نہ کرے۔‘‘
تشریح :
1. مسلم کی روایت میں فِیہِ کی جگہ مِنْہُْ ہے۔ اگر فِیہِ ہو تو اس سے مراد ہے کہ اس پانی میں داخل ہونا اور غوطہ لگانا منع ہے۔ اور مِنْہُ ہو تو اس سے مراد ہے کہ اس میں سے کسی برتن میں پانی لے کر الگ طور پر غسل کرنے کی بھی نہی ہے۔ بہرحال صحیح مسلم کی روایت سے صرف غسل کرنے کی ممانعت نکلتی ہے اور صحیح بخاری کی روایت میں اس میں پیشاب کرنے اور اس میں غسل کرنے‘ دونوں کے جمع کرنے کی ممانعت ہے جبکہ ابوداود کی روایت کی رو سے دونوں کی انفرادی طور پر بھی ممانعت ہے‘ یعنی اس میں پیشاب کرنا بھی ممنوع ہے اور اس پانی میں یا اس میں سے کچھ لے کر نہانا دونوں کی ممانعت ہے۔ تمام روایات سے حاصل یہ ہوا کہ یہ تمام عمل ہی ممنوع ہیں۔ 2. یہ اس بنا پر ہے کہ کھڑا پانی اگر مقدار میں کم ہے تو پھر وہ ناپاک ہو جائے گا اور کثیر مقدار میں ہے تو یکے بعد دیگرے پیشاب اور غسل کرنا پانی کے اوصاف میں تغیر و تبدل کاموجب ہوگا‘ چنانچہ نہی تحریم کے لیے ہے جبکہ پانی کم مقدار میں ہو اور جب پانی مقدار میں کثیر ہو تو پھر نہی تنزیہی ہے کیونکہ کثیر مقدار والا پانی رواں اور جاری کے حکم میں ہوتا ہے اور وہ ناپاک و نجس نہیں ہوتا۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الطهارة، باب النهي عن الاغتسال في الماء الراكد، حديث: 283، واللفظ له، وانظر، حديث: 282، والبخاري، الوضوء، باب البول في الماء الدائم، حديث:239، وأبوداود، الطهارة، حديث:70، والفظ له في الرواية الأخيرة، وسنده حسن.
1. مسلم کی روایت میں فِیہِ کی جگہ مِنْہُْ ہے۔ اگر فِیہِ ہو تو اس سے مراد ہے کہ اس پانی میں داخل ہونا اور غوطہ لگانا منع ہے۔ اور مِنْہُ ہو تو اس سے مراد ہے کہ اس میں سے کسی برتن میں پانی لے کر الگ طور پر غسل کرنے کی بھی نہی ہے۔ بہرحال صحیح مسلم کی روایت سے صرف غسل کرنے کی ممانعت نکلتی ہے اور صحیح بخاری کی روایت میں اس میں پیشاب کرنے اور اس میں غسل کرنے‘ دونوں کے جمع کرنے کی ممانعت ہے جبکہ ابوداود کی روایت کی رو سے دونوں کی انفرادی طور پر بھی ممانعت ہے‘ یعنی اس میں پیشاب کرنا بھی ممنوع ہے اور اس پانی میں یا اس میں سے کچھ لے کر نہانا دونوں کی ممانعت ہے۔ تمام روایات سے حاصل یہ ہوا کہ یہ تمام عمل ہی ممنوع ہیں۔ 2. یہ اس بنا پر ہے کہ کھڑا پانی اگر مقدار میں کم ہے تو پھر وہ ناپاک ہو جائے گا اور کثیر مقدار میں ہے تو یکے بعد دیگرے پیشاب اور غسل کرنا پانی کے اوصاف میں تغیر و تبدل کاموجب ہوگا‘ چنانچہ نہی تحریم کے لیے ہے جبکہ پانی کم مقدار میں ہو اور جب پانی مقدار میں کثیر ہو تو پھر نہی تنزیہی ہے کیونکہ کثیر مقدار والا پانی رواں اور جاری کے حکم میں ہوتا ہے اور وہ ناپاک و نجس نہیں ہوتا۔