كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ ضعيف وَعَنْ عَتَّابِ بنِ أُسَيْدٍ - رضي الله عنه - قَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - أَنْ يُخْرَصَ الْعِنَبُ كَمَا يُخْرَصُ النَّخْلُ، وَتُؤْخَذَ زَكَاتُهُ زَبِيبًا. رَوَاهُ الْخَمْسَةُ، وَفِيهِ انْقِطَاعٌ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا: ’’انگوروں (کے کچے پھل) کا اندازہ بھی اسی طرح لگایا جائے جس طرح کھجوروں کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اور ان کی زکاۃ کشمش کی صورت میں وصول کی جائے۔‘‘ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے مگر اس میں انقطاع ہے۔)
تشریح :
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اور اس پر سیرحاصل بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر قابل حجت اور قابل عمل بن جاتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل:۳ /۲۸۰ - ۲۸۳‘ حدیث:۸۰۵) علاوہ ازیں امام نووی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے لیکن ائمہ کا فتویٰ اس کا مؤید ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ ] عتاب میں ’’عین‘‘ پر فتحہ اور ’’تا‘‘ پر تشدیدہے۔ اَسید کے ’’ہمزہ‘‘ پر فتحہ اور ’’سین‘‘ کے نیچے کسرہ ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: عتاب بن اَسید بن ابوعیص بن امیہ بن عبدشمس اموی مکی۔ مشہور صحابی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے بعد حنین کی طرف جانے لگے تو انھیں مکہ پر اپنا عامل مقرر فرمایا۔ اس منصب پر عہد رسالت اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں مامور رہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان کی وفات اسی روز ہوئی جس روز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی۔ اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام تک زندہ رہے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في خرص العنب، حديث:1603، والترمذي، الزكاة، حديث:644، والنسائي، الزكاة، حديث:2619، وابن ماجه، الزكاة، حديث:18198، وأحمد: ولم أجده، وقال المنذري: "انقطاعه ظاهرلأن مولد سعيد في خلافة عمر و مات عتاب يوم مات أبوبكر".
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اور اس پر سیرحاصل بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر قابل حجت اور قابل عمل بن جاتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل:۳ /۲۸۰ - ۲۸۳‘ حدیث:۸۰۵) علاوہ ازیں امام نووی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے لیکن ائمہ کا فتویٰ اس کا مؤید ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ ] عتاب میں ’’عین‘‘ پر فتحہ اور ’’تا‘‘ پر تشدیدہے۔ اَسید کے ’’ہمزہ‘‘ پر فتحہ اور ’’سین‘‘ کے نیچے کسرہ ہے۔ سلسلۂ نسب یوں ہے: عتاب بن اَسید بن ابوعیص بن امیہ بن عبدشمس اموی مکی۔ مشہور صحابی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے بعد حنین کی طرف جانے لگے تو انھیں مکہ پر اپنا عامل مقرر فرمایا۔ اس منصب پر عہد رسالت اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں مامور رہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان کی وفات اسی روز ہوئی جس روز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی۔ اور ایک قول یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام تک زندہ رہے۔