كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ ضعيف وَعَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ; وَمُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا; أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ لَهُمَا: ((لَا تَأْخُذَا فِي الصَّدَقَةِ إِلَّا مِنْ هَذِهِ الْأَصْنَافِ الْأَرْبَعَةِ: الشَّعِيرِ، وَالْحِنْطَةِ، وَالزَّبِيبِ، وَالتَّمْرِ)). رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَالْحَاكِمُ. وَلِلدَّارَقُطْنِيِّ، عَنْ مُعَاذٍ: فَأَمَّا الْقِثَّاءُ، وَالْبِطِّيخُ، وَالرُّمَّانُ، وَالْقَصَبُ، فَقَدْ عَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم. وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابوموسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما دونوں سے مروی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’ جو‘ گندم‘ منقیٰ (کشمش) اور کھجور ان چار اصناف کے علاوہ کسی غلے پر زکاۃ وصول نہ کرنا۔‘‘ (اسے طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔) اور دارقطنی میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیرا (ککڑی)‘ تربوز‘ انار اور گنے میں زکاۃ معاف فرمائی ہے۔ ( اس روایت کی سند ضعیف ہے۔)
تشریح :
حضرت ابو موسیٰ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کی روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل:۳ /۲۷۸) علاوہ ازیں بعض علماء کے نزدیک یہ مرسل ہے‘ اس لیے اکثر ائمہ اس بات کے قائل ہیں کہ مذکورہ چار چیزوں کے علاوہ اور بھی جو چیزیں زمین سے پیدا ہوتی ہیں ان سب میں عشر یا نصف عشر ہے‘ جیسے باجرہ‘ مکئی‘ چنے‘ چاول‘ سرسوں‘ توریا اور گنا وغیرہ۔ ان کی دلیل قرآنی آیت : ﴿ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ﴾ (البقرۃ۲:۲۶۷) اور حدیث [فِیمَا سَقَتِ السَّمَائُ] کا عموم ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں کے الفاظ عام ہیں کہ زمین کی ہر پیداوار میں زکاۃ ہے۔ اس عموم کا تقاضا ہے کہ سب میں سے عشر یا نصف عشر نکالا جائے۔ اس عموم سے وہی چیز خارج ہو گی جس کا استثناء حدیث سے ثابت ہو گا‘ جیسے سبزیوں کا استثناء حدیث سے ثابت ہے‘ اس لیے ان میں عشر یا نصف عشر نہیں ہو گا۔ تاہم سبزیوں کے استثناء سے بالواسطہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمین کی پیداوار جو بھی زیادہ عرصے تک محفوظ رکھی جا سکتی ہے‘ اس میں عشر یا نصف عشر ادا کیا جائے گا۔ اسی بنا پر مذکورہ عموم کے قائل ائمہ‘ زمین کی پیداوار کے لیے دو شرطیں ضروری قرار دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ماپی تولی جانے والی ہو۔ دوسری یہ کہ وہ بطور خوراک ذخیرہ کی جاتی ہو۔ اس موقف کی تائید صحیح مسلم کی حدیث سے ہوتی ہے جس میں آپ نے فرمایا: ’’کسی دانے (غلے) اور کھجور میں اس وقت تک زکاۃ نہیں جب تک وہ پانچ وسق تک نہ پہنچ جائے۔‘‘ (صحیح مسلم‘ الزکاۃ‘ باب: لیس فیما دون خمسۃ أوسق صدقۃ‘ حدیث:۹۷۹) اس حدیث میں حب (دانے اور غلے) کا لفظ عام ہے جو ہر قسم کے غلے کو شامل ہے‘ اس لیے اس میں تمام اجناس آجاتی ہیں جو کھائی اور ذخیرہ کی جاتی ہیں۔ اسی طرح جو پھل وغیرہ ہیں‘ ان میں سے آیندہ فصل تک رہنے والے پھل بھی اسی اصول اور قاعدے کے تحت اس پیداوار ہی سے سمجھے جائیں گے جن میں سے زکاۃ نکالی جاتی ہے کیونکہ ان میں بھی خوراک ذخیرہ کرنے کی علت موجود ہے‘ تاہم جو پھل زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے‘ وہ سبزی کے حکم میں ہوں گے‘ یعنی ان میں زکاۃ نہیں ہو گی۔ یہی موقف راجح اور درست ہے۔ شیخ صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے‘ نیز محققین علماء کے نزدیک بھی یہ رائے زیادہ قابل اعتبار ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فقہ السنۃ‘ الزکاۃ) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی روایت جو سنن دارقطنی کے حوالے سے ہے‘ ضعیف ہے۔ اس میں ضعف کی وجہ ایک ضعیف راوی ہے اوراس کی سند بھی منقطع ہے جیسا کہ مصنف نے التلخیص میں وضاحت کی ہے‘ نیز ہمارے فاضل محقق نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے‘ دیکھیے: تحقیق و تخریج حدیث ہـذا۔
تخریج :
قال المؤلف "أخرجه الطبراني" ولم أجده، والحاكم:1 /401، سفيان الثوري مدلس وعنعن، وحديث معاذ في القثاء أخرجه الدار قطني:2 /97، وفي سنده إسحاق بن يحيى بن طلحة متروك الحديث.
حضرت ابو موسیٰ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کی روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل:۳ /۲۷۸) علاوہ ازیں بعض علماء کے نزدیک یہ مرسل ہے‘ اس لیے اکثر ائمہ اس بات کے قائل ہیں کہ مذکورہ چار چیزوں کے علاوہ اور بھی جو چیزیں زمین سے پیدا ہوتی ہیں ان سب میں عشر یا نصف عشر ہے‘ جیسے باجرہ‘ مکئی‘ چنے‘ چاول‘ سرسوں‘ توریا اور گنا وغیرہ۔ ان کی دلیل قرآنی آیت : ﴿ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ﴾ (البقرۃ۲:۲۶۷) اور حدیث [فِیمَا سَقَتِ السَّمَائُ] کا عموم ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں کے الفاظ عام ہیں کہ زمین کی ہر پیداوار میں زکاۃ ہے۔ اس عموم کا تقاضا ہے کہ سب میں سے عشر یا نصف عشر نکالا جائے۔ اس عموم سے وہی چیز خارج ہو گی جس کا استثناء حدیث سے ثابت ہو گا‘ جیسے سبزیوں کا استثناء حدیث سے ثابت ہے‘ اس لیے ان میں عشر یا نصف عشر نہیں ہو گا۔ تاہم سبزیوں کے استثناء سے بالواسطہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمین کی پیداوار جو بھی زیادہ عرصے تک محفوظ رکھی جا سکتی ہے‘ اس میں عشر یا نصف عشر ادا کیا جائے گا۔ اسی بنا پر مذکورہ عموم کے قائل ائمہ‘ زمین کی پیداوار کے لیے دو شرطیں ضروری قرار دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ماپی تولی جانے والی ہو۔ دوسری یہ کہ وہ بطور خوراک ذخیرہ کی جاتی ہو۔ اس موقف کی تائید صحیح مسلم کی حدیث سے ہوتی ہے جس میں آپ نے فرمایا: ’’کسی دانے (غلے) اور کھجور میں اس وقت تک زکاۃ نہیں جب تک وہ پانچ وسق تک نہ پہنچ جائے۔‘‘ (صحیح مسلم‘ الزکاۃ‘ باب: لیس فیما دون خمسۃ أوسق صدقۃ‘ حدیث:۹۷۹) اس حدیث میں حب (دانے اور غلے) کا لفظ عام ہے جو ہر قسم کے غلے کو شامل ہے‘ اس لیے اس میں تمام اجناس آجاتی ہیں جو کھائی اور ذخیرہ کی جاتی ہیں۔ اسی طرح جو پھل وغیرہ ہیں‘ ان میں سے آیندہ فصل تک رہنے والے پھل بھی اسی اصول اور قاعدے کے تحت اس پیداوار ہی سے سمجھے جائیں گے جن میں سے زکاۃ نکالی جاتی ہے کیونکہ ان میں بھی خوراک ذخیرہ کرنے کی علت موجود ہے‘ تاہم جو پھل زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے‘ وہ سبزی کے حکم میں ہوں گے‘ یعنی ان میں زکاۃ نہیں ہو گی۔ یہی موقف راجح اور درست ہے۔ شیخ صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے‘ نیز محققین علماء کے نزدیک بھی یہ رائے زیادہ قابل اعتبار ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فقہ السنۃ‘ الزکاۃ) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی روایت جو سنن دارقطنی کے حوالے سے ہے‘ ضعیف ہے۔ اس میں ضعف کی وجہ ایک ضعیف راوی ہے اوراس کی سند بھی منقطع ہے جیسا کہ مصنف نے التلخیص میں وضاحت کی ہے‘ نیز ہمارے فاضل محقق نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے‘ دیکھیے: تحقیق و تخریج حدیث ہـذا۔