كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ صحيح وَعَنْ جَابِرِ [بْنِ عَبْدِ اللَّهِ]- رضي الله عنه - عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ ذَوْدٍ مِنَ الْإِبِلِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ صَدَقَةٌ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ. وَلَهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ: ((لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسَاقٍ مِنْ تَمْرٍ وَلَا حَبٍّ صَدَقَةٌ)). وَأَصْلُ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانچ اوقیوں سے کم چاندی میں کوئی زکاۃ نہیں۔ اور پانچ سے کم اونٹوں میں بھی زکاۃ نہیں۔ اور پانچ وسق سے کم کھجوروں میں بھی زکاۃ نہیں۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔) اور مسلم ہی میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پانچ وسق سے کم کھجوروں یا غلے میں زکاۃ نہیں۔ (حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کی اصل بخاری و مسلم میں ہے۔)
تشریح :
اس حدیث میں چاندی کا نصاب پانچ اوقیے بیان ہوا ہے جبکہ اس سے پہلی حدیث میں دو سو درہم ہے۔ ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں ہے‘ اس لیے کہ ایک اوقیے میں چالیس درہم ہوتے ہیں اور پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہوگئے‘ لہٰذا کوئی تعارض نہ رہا۔ تین سو صاع حجازی ہمارے ملک میں مروج انگریزی وزن کے اعتبار سے تقریباً بیس من ہوتے ہیں۔ ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں جو چار من کے برابر ہے۔ گویا ہمارے ملکی حساب سے بیس من غلے سے کم میں کوئی زکاۃ نہیں‘ مگر احناف نے کتاب اللہ اور حدیث کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا ہے کہ غلہ اور کھجور‘ خواہ ایک من یا اس سے بھی کم ہی کیوں نہ ہو اس میں بھی زکاۃ ہے۔ مگر پہلی رائے ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خود وزن مقرر فرمادیا ہے تو پھر ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں اپنی جانب سے کمی بیشی کرنے کی اجازت نہیں۔ ہر اس جنس میں‘ جو سال بھر ذخیرہ ہو سکتی ہے‘ اس میں زکاۃ ہے‘ مثلاً: گندم‘ چاول‘ جو‘ باجرہ‘ مکئی‘ ماش‘ مونگ اور چنے وغیرہ۔
تخریج :
أخرجه مسلم،الزكاة، باب :1، حديث:980، وحديث أبي سعيد الخدري أخرجه البخاري، الزكاة، حديث:1405، ومسلم، الزكاة، حديث:979.
اس حدیث میں چاندی کا نصاب پانچ اوقیے بیان ہوا ہے جبکہ اس سے پہلی حدیث میں دو سو درہم ہے۔ ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں ہے‘ اس لیے کہ ایک اوقیے میں چالیس درہم ہوتے ہیں اور پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہوگئے‘ لہٰذا کوئی تعارض نہ رہا۔ تین سو صاع حجازی ہمارے ملک میں مروج انگریزی وزن کے اعتبار سے تقریباً بیس من ہوتے ہیں۔ ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں جو چار من کے برابر ہے۔ گویا ہمارے ملکی حساب سے بیس من غلے سے کم میں کوئی زکاۃ نہیں‘ مگر احناف نے کتاب اللہ اور حدیث کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فتویٰ دیا ہے کہ غلہ اور کھجور‘ خواہ ایک من یا اس سے بھی کم ہی کیوں نہ ہو اس میں بھی زکاۃ ہے۔ مگر پہلی رائے ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خود وزن مقرر فرمادیا ہے تو پھر ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ اس میں اپنی جانب سے کمی بیشی کرنے کی اجازت نہیں۔ ہر اس جنس میں‘ جو سال بھر ذخیرہ ہو سکتی ہے‘ اس میں زکاۃ ہے‘ مثلاً: گندم‘ چاول‘ جو‘ باجرہ‘ مکئی‘ ماش‘ مونگ اور چنے وغیرہ۔