كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ ضعيف وَعَنْ عَلِيٍّ - رضي الله عنه: أَنَّ الْعَبَّاسَ - رضي الله عنه - سَأَلَ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَالْحَاكِمُ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آیا زکاۃ اپنے مقررہ وقت سے پہلے ادا ہو سکتی ہے؟ تو آپ نے انھیں اس کی اجازت دے دی۔ (اسے ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
زکاۃ اگرچہ اپنے وقت پر‘ یعنی سال گزرنے کے بعد ہی واجب ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شدید ضرورت ہو تو اصحاب حیثیت لوگوں سے پیشگی زکاۃ بھی لی جا سکتی ہے‘ اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد دو سال ہے‘ یعنی دو سال کی پیشگی زکاۃ لی جاسکتی ہے‘ اس سے زیادہ نہیں کیونکہ جس واقعے سے پیشگی زکاۃ لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے‘ ان سے نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر دو سال کی زکاۃ پیشگی وصول فرما لی تھی۔ اس کی طرف اشارہ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور دیگر کتب احادیث کی روایات سے ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی بابت فرمایا: ’’ان کی زکاۃ میرے ذمے ہے اور اس کی مثل اس کے ساتھ اور بھی۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الزکاۃ‘ حدیث:۱۴۶۸‘ وصحیح مسلم‘ الزکاۃ‘ حدیث:۹۸۳) علمائے کرام نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ ان سے دو سال کی پیشگی زکاۃ وصول کر لی گئی ہے‘ دو سال کی زکاۃ ان سے طلب نہ کی جائے۔ علاوہ ازیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دو سال کی پیشگی زکاۃ لینے کی متعدد روایات آتی ہیں جنھیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے‘ لیکن ان میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ ضعف ہے جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے بھی مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم اس کے مجموعی طرق سے کم از کم اس واقعہ کی اصلیت کا اثبات ہوتا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري:۳ /۴۲۰)
تخریج :
أخرجه الترمذي، الزكاة، باب ما جاء في تعجيل الزكاة، حديث:678، الحكم بن عتيبة مدلس وعنعن.
زکاۃ اگرچہ اپنے وقت پر‘ یعنی سال گزرنے کے بعد ہی واجب ہوتی ہے لیکن اگر کوئی شدید ضرورت ہو تو اصحاب حیثیت لوگوں سے پیشگی زکاۃ بھی لی جا سکتی ہے‘ اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد دو سال ہے‘ یعنی دو سال کی پیشگی زکاۃ لی جاسکتی ہے‘ اس سے زیادہ نہیں کیونکہ جس واقعے سے پیشگی زکاۃ لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے‘ ان سے نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر دو سال کی زکاۃ پیشگی وصول فرما لی تھی۔ اس کی طرف اشارہ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور دیگر کتب احادیث کی روایات سے ملتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی بابت فرمایا: ’’ان کی زکاۃ میرے ذمے ہے اور اس کی مثل اس کے ساتھ اور بھی۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الزکاۃ‘ حدیث:۱۴۶۸‘ وصحیح مسلم‘ الزکاۃ‘ حدیث:۹۸۳) علمائے کرام نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ ان سے دو سال کی پیشگی زکاۃ وصول کر لی گئی ہے‘ دو سال کی زکاۃ ان سے طلب نہ کی جائے۔ علاوہ ازیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دو سال کی پیشگی زکاۃ لینے کی متعدد روایات آتی ہیں جنھیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے‘ لیکن ان میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ ضعف ہے جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے بھی مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم اس کے مجموعی طرق سے کم از کم اس واقعہ کی اصلیت کا اثبات ہوتا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري:۳ /۴۲۰)