كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ ضعيف وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ; عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِوٍ; أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((مَنْ وَلِيَ يَتِيمًا لَهُ مَالٌ، فَلْيَتَّجِرْ لَهُ، وَلَا يَتْرُكْهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ)). رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَالدَّارَقُطْنِيُّ، وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ. وَلَهُ شَاهِدٌ مُرْسَلٌ عِنْدَ الشَّافِعِيِّ.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی مال دار یتیم کا متولی بنے‘ اسے چاہیے کہ مال یتیم کو تجارت میں لگائے۔ اسے یوں ہی بے کار پڑا نہ رہنے دے کہ زکاۃ ہی اسے کھا جائے۔‘‘ (اسے ترمذی اور دارقطنی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے‘ البتہ امام شافعی کے پاس ایک مرسل روایت اس کی شاہد ہے۔)
تشریح :
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو اس کا شاہد بیان کیا ہے اسے بھی ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم مذکورہ روایت میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے وہ درست اور راجح ہے‘ اگرچہ علماء اور فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ یتیم کے مال سے زکاۃ نکالی جائے یا نہیں؟ اس موقف کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر‘ حضرت علی‘ حضرت عبداللہ بن عمر‘ حضرت عائشہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ بھی یتیم کے مال میں سے زکاۃ نکالنے کے قائل تھے۔ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے صحیح سند کے ساتھ بچے کے مال میں سے عدم زکاۃ کا قول ثابت نہیں۔ دیکھیے: (تحفۃ الأحوذي:۲ /۱۵) گویا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک بھی یہی ہے کہ یتیم کے مال میں سے زکاۃ نکالی جائے اور جمہور علماء کا بھی یہی مسلک ہے۔ احناف‘ جو یتیم کے مال کی زکاۃ کے قائل نہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ یتیم کے مال میں سے صدقۃ الفطر کی ادائیگی ضروری ہے۔ اسی طرح زرعی پیداوار میں سے عشر ادا کرنا بھی ضروری ہے‘ حالانکہ اس تفریق کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے کہ یتیم کی زرعی پیداوار میں سے عشر تو نکالا جائے لیکن اس کے دوسرے مال کو مستثنیٰ کر دیا جائے۔
تخریج :
أخرجه الترمذي، الزكاة، باب ما جاء في زكاة مال اليتيم، حديث:641، وذكر كلامًا، والدار قطني: 2 /109، 110. * المثنى ضعيف، وتابعه محمد بن عبيد الله العرزمي وهو متروك، وللحديث طرق ضعيفة منها شاهد مرسل عندالشافعي في الأم: 2 /29 وسنده ضعيف مرسل، ابن جريج عنعن.
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو اس کا شاہد بیان کیا ہے اسے بھی ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم مذکورہ روایت میں جو مسئلہ بیان ہوا ہے وہ درست اور راجح ہے‘ اگرچہ علماء اور فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ یتیم کے مال سے زکاۃ نکالی جائے یا نہیں؟ اس موقف کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر‘ حضرت علی‘ حضرت عبداللہ بن عمر‘ حضرت عائشہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ بھی یتیم کے مال میں سے زکاۃ نکالنے کے قائل تھے۔ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے صحیح سند کے ساتھ بچے کے مال میں سے عدم زکاۃ کا قول ثابت نہیں۔ دیکھیے: (تحفۃ الأحوذي:۲ /۱۵) گویا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک بھی یہی ہے کہ یتیم کے مال میں سے زکاۃ نکالی جائے اور جمہور علماء کا بھی یہی مسلک ہے۔ احناف‘ جو یتیم کے مال کی زکاۃ کے قائل نہیں‘ وہ کہتے ہیں کہ یتیم کے مال میں سے صدقۃ الفطر کی ادائیگی ضروری ہے۔ اسی طرح زرعی پیداوار میں سے عشر ادا کرنا بھی ضروری ہے‘ حالانکہ اس تفریق کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے کہ یتیم کی زرعی پیداوار میں سے عشر تو نکالا جائے لیکن اس کے دوسرے مال کو مستثنیٰ کر دیا جائے۔