كِتَابُ الزَّكَاةُ بَابُ الزَّكَاةِ ضعيف وَعَنْ عَلِيٍّ - رضي الله عنه - قَالَ: ((لَيْسَ فِي الْبَقَرِ الْعَوَامِلِ صَدَقَةٌ)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالدَّارَقُطْنِيُّ، وَالرَّاجِحُ وَقْفُهُ أَيْضًا.
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
باب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کام کرنے والے بیلوں پر زکاۃ واجب نہیں۔ (اسے ابوداود اور دارقطنی نے روایت کیا ہے۔ راجح یہی ہے کہ یہ بھی موقوف ہے۔)
تشریح :
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر طویل بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (مفصل)‘ رقم:۱۴۰۴) بنابریں رہائشی مکان‘ گھر میں استعمال ہونے والی اشیاء اور کارخانوں کی عمارتوں اور مشینریوں پر زکاۃ نہیں۔ اگر ان پر بھی زکاۃ ہوتی تو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ بعض دفعہ لاکھوں کروڑوں روپے کارخانوں اور مشینریوں پر لگانے کے باوجود کئی سال تک کوئی نفع نہیں ہوتا‘ اس صورت میں اگر کارخانے دار کو کاروبار میں لگائے ہوئے لاکھوں کروڑوں کی سالانہ زکاۃ بھی ادا کرنا پڑتی تو اس کی مشکلات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے‘ اس لیے اسلام نے عمارتوں‘ آلات و اوزار اور مشینریوں کو زکاۃ سے مستثنیٰ رکھا ہے۔ ہاں‘ ان کے ذریعے سے جو منافع حاصل ہو گا اس پر زکاۃ ہو گی اور وہ بھی تب‘ جب منافع میں سے جو کچھ اس کی ضروریات پوری ہونے کے بعد بچ جائے اور وہ اس کے پاس ایک سال تک پڑا رہے اور اس کی مقدار بھی نصاب کے مطابق ہو۔ اگر ان میں سے ایک بھی شرط کم ہو گی تو زکاۃ اس پر عائد نہیں ہو گی۔ واللّٰہ أعلم۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن جانوروں سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے کام لیا جائے‘ یعنی وہ آلات و ذرائع کے طور پر استعمال ہوں‘ ان پر کوئی زکاۃ نہیں۔ اسی طرح وہ کارخانے جن سے پیداوار حاصل ہوتی ہے ان کی مشینری پر بھی زکاۃ نہیں کیونکہ وہ بھی آلات پیداوار اور ذرائع پیداوار ہیں۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الزكاة، باب في زكاة السائمة، حديث: 1572، والدار قطني: 2 /103، أبو إسحاق عنعن.
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر طویل بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (مفصل)‘ رقم:۱۴۰۴) بنابریں رہائشی مکان‘ گھر میں استعمال ہونے والی اشیاء اور کارخانوں کی عمارتوں اور مشینریوں پر زکاۃ نہیں۔ اگر ان پر بھی زکاۃ ہوتی تو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ بعض دفعہ لاکھوں کروڑوں روپے کارخانوں اور مشینریوں پر لگانے کے باوجود کئی سال تک کوئی نفع نہیں ہوتا‘ اس صورت میں اگر کارخانے دار کو کاروبار میں لگائے ہوئے لاکھوں کروڑوں کی سالانہ زکاۃ بھی ادا کرنا پڑتی تو اس کی مشکلات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے‘ اس لیے اسلام نے عمارتوں‘ آلات و اوزار اور مشینریوں کو زکاۃ سے مستثنیٰ رکھا ہے۔ ہاں‘ ان کے ذریعے سے جو منافع حاصل ہو گا اس پر زکاۃ ہو گی اور وہ بھی تب‘ جب منافع میں سے جو کچھ اس کی ضروریات پوری ہونے کے بعد بچ جائے اور وہ اس کے پاس ایک سال تک پڑا رہے اور اس کی مقدار بھی نصاب کے مطابق ہو۔ اگر ان میں سے ایک بھی شرط کم ہو گی تو زکاۃ اس پر عائد نہیں ہو گی۔ واللّٰہ أعلم۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن جانوروں سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے کام لیا جائے‘ یعنی وہ آلات و ذرائع کے طور پر استعمال ہوں‘ ان پر کوئی زکاۃ نہیں۔ اسی طرح وہ کارخانے جن سے پیداوار حاصل ہوتی ہے ان کی مشینری پر بھی زکاۃ نہیں کیونکہ وہ بھی آلات پیداوار اور ذرائع پیداوار ہیں۔